بھیرہ موٹر وے کے قریب عوامی تحریک اور پولیس میں تصادم کے دوران بزدلی کا مظاہرہ ، موقع سے بھاگ جانے والے پنجاب کانسٹیبلری سے پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کرنے کا امکان

جمعرات 21 اگست 2014 14:50

بھیرہ موٹر وے کے قریب عوامی تحریک اور پولیس میں تصادم کے دوران بزدلی ..

حیدر آباد ٹاؤن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21اگست۔2014ء) بھیرہ موٹر وے کے قریب عوامی تحریک اور پولیس میں تصادم کے دوران بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موقع سے بھاگ جانے والے پنجاب کانسٹیبلری سے پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کرنے کا امکان ‘ 184 اہلکاروں کی معطلی کے بعد انہیں شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ایس پی عہدہ کے آفیسر کو انکوائری آفیسر مقرر کر دیا گیا‘ تفصیلات کے مطابق 9 اگست 2014 کو موٹر وے سروس ایریا بھیرہ کے مقام پر عوامی تحریک کے کارکنان اور پولیس میں خوفناک تصادم ہوا جس میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق 60 سے زائد اہلکار و افسران شدید زخمی ہوئے‘ اس دوران مظاہرین نے جب حملہ کیا تو پنجاب کانسٹیبلری فیصل آباد بٹالین کے سینکڑوں اہلکار گاڑیاں اور سامان چھوڑ کر بھاگ نکلے‘ جس کے بعد پولیس کی گاڑیوں کو نظر آتش کرتے ہوئے املاک کو کم و بیش 6 کروڑ سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا‘ تا ہم پولیس اہلکاروں کی بزدلی اور چھوڑ کر بھاگ جانے کے واقعہ پر آئی جی پولیس پنجاب نے سخت نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا‘ جس کے بعد پنجاب کانسٹیبلری کے 184 مزید اہلکاروں کو معطل کر کے ان کو شوکاز نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں‘ ان میں ایک پولیس انسپکٹر 4 اسسٹنٹ سب انسپکٹر‘ 3 حوالدار اور 170 کانسٹیبلان شامل ہیں‘ جن کے خلاف محکمانہ انکوائری کی جا رہی ہے‘ ایس پی بٹالین فیصل آباد محمود گیلانی کو انکوائری آفیسر مقرر کرتے ہوئے ان اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کا حکم دے دیا گیا ہے‘ ذرائع کے مطابق ان اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کیے جانے کا امکان ہے۔

(جاری ہے)

دوسری جانب ضلعی پولیس سرگودھا‘ جہلم اور راولپنڈی کے متعدد اہلکاروں نے الزام عائد کیا ہے کہ کمانڈ کرنے والے ایس ایس پی عہدہ کے افسران ہی جب موقع سے بھاگ نکلے تو اس کے بعد اہلکار کس کی کمانڈ میں ہزاروں کے تعداد میں موجود مظاہرین سے کیسے نمٹتے۔ مزید برآں پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ آر پی او راولپنڈی عمر اختر حیات لالیکا پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ جائے وقوعہ پر بروقت نہ پہنچتے تو ایک پولیس اہلکار کی بجائے درجنوں اہلکار جان کی بازی ہار جاتے‘ علاوہ ازیں سانحہ بھیرہ کے بار ے میں تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے اور تعین کیا جا رہا ہے کہ کس پولیس افیسر کی طرف سے موقع سے بھاگ جانے کے بعد پولیس کا مورال ڈاؤن ہوا اور مظاہرین کے ہاتھوں پولیس کی خوب دھلائی کی گئی‘ ایک پولیس اہلکار جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے‘ اس ضمن میں تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یاد رہے کہ پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے تصادم میں ہونے والے نقصان کے بعد تھانہ بھیرہ پولیس نے عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری سمیت 8 ہزار سے زائد کارکنوں کے خلاف دہشتگردی ایکٹ‘ قتل‘ اقدام قتل‘ پولیس سے مزاحمت کے علاوہ متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے 110 کارکنوں کو گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا جن کو آئندہ تاریخ پیشی پر 9 ستمبر کو انسداد دہشتگردی سرگودھا کی عدالت میں پیش کیا جائے گا‘ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری سمیت سینکڑوں کارکنوں کی گرفتاری نہ ہونے کے باعث ان کو پولیس کی طرف سے اشتہاری قرار دیا جا سکتا ہے۔

اس ضمن میں پولیس کے اعلیٰ افسران میں صلاح مشورے شروع ہیں جبکہ مقدمہ کی تفتیش کے لئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بھی حکومت پنجاب کی طرف سے بنا دی گئی ہے۔