پیپلز پارٹی 16،16گھنٹوں کی ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کو برداشت نہیں کریگی ‘ میاں منظور احمد وٹو

پیر 28 جولائی 2014 15:45

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔28جولائی۔2014ء) پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد وٹو نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی 16،16گھنٹوں کی ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کو برداشت نہیں کریگی ،ملک میں لوڈشیڈنگ کا عذاب حکومت کو جلد لے ڈوبے گا کیونکہ عوام کی اس ضمن میں تمام امیدیں دم توڑ چکی ہیں، کسان برادری لوڈ شیڈنگ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے،بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ٹیوب ویلوں کے ذریعے آبپاشی کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے جس سے زرعی پیداوار خطرناک حد تک کم ہو رہی ہے۔

ملک میں جاری بدترین لوڈ شیڈنگ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میاں منظور احمد وٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں ٹیوب ویلوں کو 3،3گھنٹو ں کی بلاتعطل اور سستی بجلی مہیا کی جاتی تھی جس سے کسانوں کی آبپاشی کی ضرورتیں بخوبی پوری ہو رہی تھیں اور ملک خوراک کے معاملے میں خودکفیل ہو گیا تھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ اب ایک ایک گھنٹہ ٹیوب ویلوں کو مہنگی بجلی سے پانی کھیتوں کے ٹیل تک نہیں پہنچتا جس سے آبپاشی کو شدید نقصان ہو رہا ہے جو کسانوں کے معاشی قتل کا موجب بن رہا ہے ۔

میاں منظور احمد وٹو نے کہا کہ حکومت 7000میگا واٹ کی شارٹ فال کو کم کرنے میں ناکام رہی ہے جو عوام میں سخت مایوسی کا باعث ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ یہ حکومت نہیں کر سکتی اسکے باوجودہ کہ انہوں نے بلند بانگ دعوے کئے تھے کہ وہ لوڈشیڈنگ کو سالوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں ختم کر دیں گے۔ میاں منظور احمد وٹونے کہا کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا نندی پور ہائیڈل پاور پراجیکٹ مقام عبرت بن گیا ہے جو نہ تو بجلی پیدا کر رہا ہے اور اگر تھوڑی بہت کر رہا ہے تو وہ سب سے زیادہ مہنگی ہے۔

میاں منظور احمد وٹو نے یاد دلایا کہ پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت نے نیشنل گرڈ میں تقریباً3400میگا واٹ بجلی شامل کی تھی جس سے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 3سے 4گھنٹے تک رہ گیا تھا ۔ اس حکومت نے ایک سال سے زائد عرصہ میں حقیقت میں ایک میگا واٹ بجلی بھی نیشنل گرڈ میں شامل نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ مینار پاکستان میں ہاتھ میں پنکھا لئے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف احتجاج کیا کرتے تھے اب ان کو موجودہ اور ماضی کی صورتحال کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے خود ہی اپنے رد عمل کا فیصلہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ اب انکی عزت کا سوال ہے۔