عدلیہ مخالف بینرز کیس،سپریم کورٹ نے پولیس کی رپورٹ کو ناکافی قرار دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر جامع رپورٹ طلب کر لی ، گرفتار ملزم کی جسٹس جواد سے کیا دشمنی تھی؟محض گرفتار ملزم کے بیان کو کافی نہیں سمجھا جاسکتا ،پتہ چلایا جائے پیچھے کون سا خفیہ ہاتھ کار فرما ہے؟جسٹس ناصر الملک،وفاقی دارالحکومت میں جرائم کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے اسلام آباد پولیس کیا کر رہی ہے؟جسٹس دوست محمد

منگل 22 جولائی 2014 22:39

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22جولائی۔2014ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدلیہ مخالف بینرز کیس میں پولیس کی رپورٹ کو ناکافی قرار دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر جامع رپورٹ طلب کر لی ہے،دوران سماعت چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گرفتار ملزم کی جسٹس جواد ایس خواجہ سے کیا دشمنی تھی؟،محض گرفتار ملزم کے بیان کو کافی نہیں سمجھا جاسکتا ،پتہ چلایا جائے کہ اس کے پیچھے کون سا خفیہ ہاتھ کار فرما ہے جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی دارالحکومت میں جرائم کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے اسلام آباد پولیس کیا کر رہی ہے؟۔

منگل کے روز کیس کی سماعت چیف جسٹس ناصر الملک اور جسٹس دوست محمد خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

سماعت کے موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل خواجہ احسن الدین نے عدالت کے روبرو پیش ہو کر بتایا کہ اسلام آباد پولیس نے مرکزی ملزم راشد کو گرفتار کر لیا ہے جس نے مجسٹریٹ کی سامنے اعترافی بیان میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ وہ اکیلا اس ان بینرز کو آویزاں کرنے میں ملوث تھا اور اس سے قبل بھی وہ اس قسم کی حرکتوں میں ملوث رہا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ اس ملزم کی جسٹس جواد ایس خواجہ کے ساتھ کیا دشمنی تھی؟ جس کا ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کوئی جواب نہیں دیا۔ڈی اے جی عدالت کو مزید بتایا کہ درخواست گزاروں شیخ احسن الدین اور توفیق آصف ایڈووکیٹ کے بیانات بھی قلم بند کر لئے گئے ہیں۔درخواست گزاروں نے مطالبہ کیا ہے کہ نجی چینل اے آر وائی کے اینکر مبشر لقمان کو شامل تفتیش کیا جائے مگر مبشر لقمان کے بیرون ملک ہونے کے باعث ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا جاسکا، ا ن کا کہنا تھا کہ تفتیش میں پولیس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ گرفتار ملزم راشد ہی عدلیہ مخالف بینرز کا ماسٹر مائنڈ تھا اور اس میں کسی اور کا کوئی عمل دخل نہیں تھا،اس نے سب کچھ اپنے طور کیا تاہم اس معاملے پر نااہلی کے مرتکب پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کاروائی شروع کر دی گئی ہے اور ایک افسر کی تنزلی بھی کی گئی ہے۔

جس پر جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیئے کہ دارالحکومت میں جرائم کی شرح بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، بتایا جائے اسلام آباد پولیس کیا کر رہی ہے؟اس موقع پر چیف جسٹس مسٹر جسٹس ناصر الملک نے ڈی اے جی کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ملزم کے بیان کو کافی نہیں قرار دیا جاسکتا،پتہ چلایا جائے کہ اس کام میں کون سا ہاتھ کار فرما تھا؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزم کے اور کیس سے متعلق تمام ڈیٹا ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو بھی فراہم کر دیا گیا کہ اس کی مزید تفصیلات حاصل کی جاسکتی ہیں۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 19اگست تک ملتوی کردی اور تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔