فوج نے تین برس قبل شمالی وزیرستان آپریشن کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا، جنرل کیانی کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے کارروائی نہ ہوسکی، اطہر عباس

پیر 30 جون 2014 18:54

فوج نے تین برس قبل شمالی وزیرستان آپریشن کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا، جنرل ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔30جون 2014ء) پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سابق ڈائیریکٹرجنرل میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے کہا ہے کہ فوج نے تین برس قبل شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا تاہم اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ہچکچاہٹ کے باعث یہ کارروائی نہ کی جا سکی،اس تاخیر کی وجہ سے شدت پسندوں کے قدم مضبوط ہو چکے ہیں، ان کی تعداد بڑھ گئی ہے، ان کے وسائل میں اضافہ ہو چکا ہے، معاملات زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں، کارروائی 2011میں ہو جانی چاہیے تھی۔

ہم نے اس پر بہت وقت ضائع کر دیا ہے جس سے ہم سب کی مشکلات بڑھی ہیں،برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے ایک انٹرویومیں میجر جنرل (ر) اطہر عباس نے کہا کہ فوجی قیادت نے 2010میں اس آپریشن کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا جس کے بعد ایک سال فوجی کارروائی کی تیاری کی گئی لیکن عین موقع پر جنرل کیانی کی جانب سے فیصلہ کرنے میں تذبذب کے باعث یہ آپریشن نہیں ہو سکا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ جنرل (ر)اشفاق پرویز کیانی میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کے بارے میں ایک طرح کی ہچکچاہٹ پائی جاتی تھی۔ وہ یہ فیصلہ کرنے میں بہت تامل کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ فیصلہ کرنے سے ان کی ذات کے بارے میں باتیں کی جائیں گی کہ یہ جنرل کیانی کا ذاتی فیصلہ ہے اس لئے وہ اس فیصلے کو ٹالتے رہے جس کے باعث ہم نے بہت وقت ضائع کیا اور نقصان اٹھایا۔

جنرل اطہر عباس نے کہا کہ اس شش و پنج میں بدقسمتی سے بہت وقت ضائع ہو گیا جس کی بھاری قیمت اس ملک، عوام، حکومت اور فوج کو ادا کرنی پڑی۔اس تاخیر کی وجہ سے شدت پسندوں کے قدم مضبوط ہو چکے ہیں، ان کی تعداد بڑھ گئی ہے، ان کے وسائل میں اضافہ ہو چکا ہے، ان کے آپس میں رابطے بڑھ چکے ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہاں پر معاملات زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔

اطہر عباس نے کہاکہ فوج کی اعلی قیادت نے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا فیصلہ وہاں پر تعینات فوجی کمانڈروں کی رائے اور وہاں سے ملنے والی انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر کیا تھا۔وہاں زمین پر موجود فوجی کمانڈروں کی متفقہ رائے تھی کہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بغیر ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر طرح کے شدت پسند اسی علاقے میں جمع ہو چکے تھے۔

اطہر عباس نے کہا کہ اس سے پہلے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کرنے کے بارے میں فوج کی اعلی قیادت میں دو آرا پائی جاتی تھیں۔ ایک رائے اس کارروائی کے حق میں تھی جب کہ دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ اس کارروائی کو ملتوی کیا جا سکتا ہے۔اس کی بہت سی وجوہات تھیں جن میں حقانی نیٹ ورک بھی شامل تھا کہ انھیں کیسے ہینڈل کیا جائے۔ اس کے علاوہ فوجی کارروائی کے متاثرین کا مسئلہ بھی بہت اہم تھا۔

اطہر عباس نے کہا کہ فوجی قیادت کی رائے تھی کہ حکومت اور ملک کی سیاسی قیادت نے 2009میں سوات سے نقل مکانی کرنے والوں کا ٹھیک طرح سے خیال نہیں رکھا تھا اور خدشہ تھا کہ شمالی وزیرستان سے بھی بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کریں گے۔میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں حالات آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے 2010میں تھے اس لئے اگر آج آپریشن کیا جا رہا ہے تو اس وقت بھی کیا جا سکتا تھا۔میری ذاتی رائے میں یہ کارروائی 2011میں ہو جانی چاہیے تھی۔ ہم نے اس پر بہت وقت ضائع کر دیا ہے جس سے ہم سب کی مشکلات بڑھی ہیں۔

متعلقہ عنوان :