پاک فوج پاکستان کے قومی مفادات کو سمجھتی ہے ، پورے طریقے سے حکومت کیساتھ ہے، پرویز رشید

ہفتہ 24 مئی 2014 16:27

پاک فوج پاکستان کے قومی مفادات کو سمجھتی ہے ، پورے طریقے سے حکومت کیساتھ ..

لاہور( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 24مئی 2014ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویزرشید نے کہا ہے کہ پاک فوج پاکستان کے قومی مفادات کو سمجھتی ہے اور انہیں پورا کرنے کیلئے پورے طریقے سے حکومت کے ساتھ ہے ،ماضی میں پرویز مشرف نے جو کیا وہ ایک فرد کی غلطی تھی جو انہیں بھگتنا پڑی اور انہیں کولمبو میں جا کر واجپائی کے گھٹنوں تک پہنچنا پڑا ، اگر مشرف کی سوچ رکھنے والے دو چار لوگ ہیں تو انہوں نے مشرف کو گھٹنے پکڑتے ہوئے دیکھا ہو گا انہوں نے بھی سیکھ لیا ہوگا جو ہاتھ کو جھٹکتے ہیں انہیں گھٹنے بھی پکڑنا پڑتے ہیں ،پاکستان کی سلامتی کو جہاں سے خطرہ ہوگا اس خطرے کا جواب اسی زبان میں دیا جائے گا جو زبان سمجھتی جاتی ہے ،اگر کوئی مذاکرات کرنا چاہتا ہے اسکے لئے دروازے کھلے ہیں جو مذاکرات نہیں کرنا چاہتا اور جنگ کرنا چاہتا ہے تو اسکی زبان میں اس کو جواب مل جائے گا ،میڈیا مالکان نے آزادی رائے کا اختیار کیبل آپریٹرز کو دیدیا ہے ،ٹی وی چینلز کو بند کرنے کا اختیار کیبل آپریٹرز کے پاس نہیں ہے،عمران خان کی پہلے کوئی کوشش کامیاب ہوئی نہ اب کامیاب ہو گی انکے جھوٹ روز ایکسپوز ہوتے ہیں ،عمران خان کہتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز لاہور میں منعقد ہ ایک تقریب میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے بھارتی وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت قبول کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ جب ہمسایوں کے ہاں خوشی کا دن ہو تو آپ انکی خوشی میں ساتھ دیتے ہیں دنیا میں اسی طرح زندہ رہا جاتا ہے ۔

آپ اپنے آپ کو ہمسایوں سے اور ہمسایوں کے ہاں جو تبدیلیاں آتی ہیں ان تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔بھارت میں انتخابات ہوئے ہیں اور وہاں کی عوام نے ایک نئی حکومت کو منتخب کیا ہے ہم بھارت کی عوام کے فیصلے کا بالکل اسی طرح احترام کرتے ہیں جس طرح بھارت پاکستان میں پاکستانی عوام کے کئے ہوئے فیصلوں کا احترام کرتا ہے جس طرح پاکستان دنیا کے دوسرے ممالک میں عوام فیصلہ کرتے ہیں جب امریکہ کا صدر منتخب ہوتا ہے اس کا احترام کرتے ہیں جس طرح چین میں حکومت آتی ہے اس کا احترام کرتے ہیں برطانیہ میں یہ مرحلہ ہوتا ہے اور عوام اپنے ممالک کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں سب ان فیصلوں کو مانتے ہیں احترام کرتے ہیں ہم بھی بھار ت کی عوام کے فیصلوں کو مانتے ہیں اور احترام کرتے ہیں۔

اب اگلے پانچ سال نئی حکومت نے ہی بھارت میں پالیسی بنانی ہے اور اسی حکومت نے ہمسایوں سے تعلقات کی نوعیت کو طے کرنا ہے ہمیں انہی لوگوں سے ملنا پڑے گا گفتگو کرنی ہو گی ا نہی کے ساتھ بیٹھنا ہوگا باتیں سننا ہوں گی ۔اپنے آپ کو ماضی کے جو حادثات ہیں ماضی کے اذیتیں ہیں ،کرب ہیں ان سے مستقبل نہیں گزارا جا سکتا ہے مستقبل کے لئے خوشگوار بنیادیں رکھنا ہوتی ہیں تاکہ ماضی میں جو تلخیاں پیدا ہوئیں مستقبل میں اس طرح کی تلخیاں دوبارہ پیدا نہ ہوں ۔

اپنے مستقبل کو اپنے آنے والی نسلوں کے مستقبل کو اگر ہم خوشگوار بنانا چاہتے ہیں تو ماضی کی غلطیوں اور شکایتوں کی زنجیر کو توڑنا ہوگا ۔ انہوں نے اس سوال کہ اگر کسی ادارے نے کوئی شرات کی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ کے سوال سے متفق نہیں ہوں فوج نے نا ماضی میں اس قسم کا دخل دیا تھا اور نہ حال میں دخل دے رہی ہے فوج پاکستان کی قومی فوج ہے اور وہ پاکستان کے قومی مفادات کو سمجھتے ہیں اور انہیں پورا کرنے کیلئے پورے طریقے سے حکومت کے ساتھ ہیں ۔

ماضی کی جس بات بات کا آپ اشارہ کر رہے تھے وہ مشرف کی غلطی تھی وہ ایک فرد کی غلطی تھی اور مشرف کو اپنی غلطی خود بھگتنی پڑی کہ پہلے انہوں نے وہ کیا جس کا آپ نے ذکر کیا اور پھر کولمبو میں جا کر واجپائی کے گھٹنوں تک پہنچنا پڑا ۔ مشرف کی سوچ رکھنے والے جو دو چار لوگ ہیں انہوں نے مشرف کو گھٹنے پکڑتے ہوئے دیکھا ہو گا انہوں نے بھی سیکھ لیا ہوگا جو ہاتھ کو جھٹکتے ہیں انہیں گھٹنے بھی پکڑنا پڑتے ہیں ۔

ہم اپنے اعمال کے جوابدہ ہیں دنیا ہمیں ہمارے اعمال سے جانچتی ہے پاکستان کی عوام کے مقدر جو ہیں انکی تقدیر ہمارے اعمال سے وابستہ ہے ہمیں اپنے اعمال اچھے رکھنا ہیں ۔ انہوں نے طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کی سلامتی کو جہاں سے خطرہ ہوگا اس خطرے کا جواب اسی زبان میں دیا جائے گا جو زبان سمجھتی جاتی ہے اگر کوئی مذاکرات کرنا چاہتا ہے اسکے لئے دروازے کھلے ہیں جو مذاکرات نہیں کرنا چاہتا اور جنگ کرنا چاہتا ہے تو اسکی زبان میں اس کو جواب مل جائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ طالبان میں ایسے بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے مذاکرات کئے ہیں او رمذاکرات کے عمل کو منقطع نہیں کیا کچھ لوگ ہیں جومذاکرات نہیں کرنا چاہتا لیکن وہ جس رنگ میں چلنا چاہتا ہے اس رنگ میں چل کر دیکھ لیں۔ انہوں نے کہا کہ افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ میڈیا کے بڑے بڑے اداروں نے قینچی کیبل آپریٹرز کے ہاتھ میں دیدی ہے کہ اب اظہار رائے کی آزادی جو ہے اس کا تعین کیبل آپریٹرز کی قینچی کیا کرے گی لیکن ہم حکومت کے طور پر کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے او روہ فیصلہ کرے کہ کس کس چینل کو چلنا ہے اور کس چینل کو بند ہونا ہے یہ فیصلہ کیبل آپریٹرز کے ہاتھ میں نہیں دیا جا سکتا انہیں اختیار نہیں میرے لئے اور آپ کے لئے تعین کریں گے ہم کونسے پروگرام دیکھیں گے اور کونسے نہیں دیکھیں گے اور کون سا چینل دیکھیں گے اور کونسا نہیں دیکھیں گے۔

ہمیں تو یہ معلوم ہے کہ کیبل آپریٹرز یہ کر رہے ہیں اور وہ پریس کانفرنسز کر کے اسکی ذمہ دا ری بھی لیتے ہیں لیکن پیمرا نے ایکشن لینا شروع کر دیا ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ کچھ کیبل آپریٹرز نے واپسی کا راستہ اختیار کیا ہے او رمجھے یقین ہے کہ وہ اپنے آپکو لا قانونیت سے دور کریں گے او رجو ان کا کام ہے وہ اپنا کام کریں گے یہ ان کا کام نہیں ہے کہ کسی چینل کی بندش کریں۔

انہوں نے ایوانوں اور سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کے حوالے سے کہا کہ دس لوگوں کے اس اقدام کو ہنگامہ آرائی نہیں کہہ سکتے پورا پاکستان پر امن ہے پاکستان کی عوام کی ملک میں ہونے والی ترقی پر نظر ہے او روہ اسے مکمل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی طرح کی باتیں جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں کر کے موٹر وے کے سفر کو روکا گیا تھا تو عوام دوبارہ نواز شریف کو لے کر آئے تھے اور موٹر وے کا سفر ممکن ہوا تھا اسی طرح اب جن منصوبوں کی بات کی جارہی ہے جن میں لاہور سے کراچی اور کراچی سے لاہور ،پاک چین اکنامک کوریڈو ر ‘ بجلی کے منصوبے شروع ہونا عوام ان منصوبوں کو مکمل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔

مٹھی بھر لوگ جو پاکستان میں ترقی کے سفر کو روکنا چاہتے ہیں یہ ماضی میں بھی ناکام ہوئے اور اب بھی ناکام ہوں گے ۔ پرویزرشید نے کہا کہ عمران خان کی پہلے کوئی کوشش کامیاب ہوئی نہ اب کامیاب ہو گی انکے جھوٹ روز ایکسپوز ہوتے ہیں ،عمران خان کہتے ہیں سرگوھا کے حلقے میں رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ ووڈ دالے گئے لیکن الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے جتنے ووٹ موجود تھے اتنے کاسٹ ہوئے ۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں نظر انداز کرنا مناسب ہے جو شخص اپنا ایک سال مکمل ہونے پر اپنے صوبے میں نہیں جا سکتا وہ بنی گالہ سے بیٹھ کر صوبے کو چلانے کوشش کر رہے ہیں اور جلسہ کرنے کیلئے فیصل آباد آ جا تے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ پشاور میں بیٹھ کر حکومت چلائیں اور جلسہ ایبٹ آباد اور پشاور میں کرتے اور اپنی کامیابیاں بتاتے ۔

ان کا دعویٰ تھا کہ میں نوے روز میں سب کچھ ٹھیک کردوں گا وہ بتاتے جو چیزیں وہ نوے روز میں ٹھیک کر سکتے تھے وہ انہوں نے 360دنوں میں کیوں ٹھیک نہیں کیں۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عمران خان اپنے مہرے خود ہیں ۔ انہوں نے سی سی پی او کراچی کی تبدیلی کے سوال کے جواب میں کہا کہ شاہد حیات نے کراچی میں امن کے لئے جو خدمات سر انجام دی ہیں سندھ حکومت اسکی کریڈٹ لیتی رہی ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ شاید حیات کے اقدامات کا دفاع کرتے رہے اگر وہاں اچھی صورتحال پیدا ہوئی تو سندھ حکومت اسکی تعریف کرتی رہی اور تسلیم کرتی رہی ۔وہاں ڈی جی رینجرز اور سی سی پی او نے بہترین کام کیا اورایک اچھا کراچی نظر آنا شروع ہو گیا تو اس شخص کو تبدیل نہ کیا جاتا تو یہ باتیں نہ ہوتیں ۔

متعلقہ عنوان :