افغانستان میں کام کرنیوالے پاکستانی انجینئروں اور کارکنوں کے اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ، نیسپاک کے افغانستان میں سربرا ہ فرمان اللہ 47 دن یرغمال رہے، لوگر سے اغوانیسپاک کے محمد اعظم کو17ہزار ڈالر تاوان دے کر رہا کرایا گیا، انجینئر عمر فاروق کو قتل کردیا گیا، افغان پٹرولیم کمپنی میں ملازم پاکستانی امجد علی سات مئی سے لاپتہ ہیں، پاکستانی عبدالستار کو مئی کے پہلے ہفتے میں اغواء کیا گیا ، پاکستانی نجی ٹی وی کے صحافی فیض اللہ خان کو مشرقی صوبے کنڑ میں اغواء کیا گیا ،پاکستانی شہریوں کے اغواء اور لاپتہ ہونے میں افغان انٹیلی جنس ایجنسی کا کردار ہے، سفارتی ذرائع

اتوار 11 مئی 2014 23:25

افغانستان میں کام کرنیوالے پاکستانی انجینئروں اور کارکنوں کے اغواء ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔11مئی۔2014ء) افغانستان میں پاکستان کی مدد سے زیر تعمیر مختلف ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنیوالے انجینئروں اور دوسرے کارکنوں کے اغواء برائے تاوان کی وارداتوں اور ان کو تنگ کرنے کے واقعات میں حالیہ دنوں میں اضافہ ہوگیاہے، سفارتی ذرائع نے کہا ہے کہ پاکستان کی سرکاری قومی انجینئرنگ خدمات سرانجام دینے والے ادارینیسپاک کے افغانستان میں سربراہ فرمان اللہ خان اور نیسپاک کے ایک انسپکٹر محمد فاروق کو افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد سے یکم جنوری کو اغواء کیا گیا تھا جو 47 دن تک یرغمال رہے ۔

انہیں17 فروری کو نیٹو افواج کے اس علاقے میں آپریشن کے دوران رہا کرایا گیا فرمان اللہ خان پاکستان کے تعاون سے کابل میں 400 بستروں پر مشتمل جناح ہسپتال کی تعمیر کے انچارج ہیں اس کے علاوہ پاکستان کی امداد سے صوبہ لوگر میں تعمیر ہونیوالے 200 بستروں کے ایک ہسپتال ، بلخ صوبے میں ایک انجینئرنگ یونیورسٹی اور کابل میں رحمان بابا ہاسٹل کی تعمیر کی بھی نگرانی کررہے ہیں، ایک دوسرے پاکستانی محمد اعظم جو کہ نیسپاک کی طرف سے ایک علاقے میں نگرانی کا کام کررہے تھے کوگزشتہ سال ستمبر میں لوگر صوبے سے اغواء کر لیا گیا تھا انہیں بعد میں رشتہ داروں کی جانب سے 17 ہزار ڈالر تاوان دے کر رہا کرایا گیا تھا، محمد اعظم لوگر صوبے میں پاکستان کی مدد سے تعمیر ہونیوالے ایک ہسپتال کے کام کی نگرانی کررہے تھے ۔

(جاری ہے)

لیاقت علی خان انجینئرنگ یونیورسٹی پر کام کرنیوالے نیشنل لاجیسٹک سیل کے ایک انجینئر عمر فاروق کو اس وقت قتل کردیا گیا تھا جب وہ صوبہ سمنگان سے مزار شریف جارہے تھے اسی واقعہ میں نیسپاک کے دو پاکستانی کارکن ناصر حسین اور عابد علی زخمی ہوگئے تھے ۔ ایک اور پاکستانی امجد علی جو کہ افغان پٹرولیم کمپنی میں ملازم ہیں سات مئی سے لاپتہ ہیں ایک اور پاکستانی عبدالستار کو مئی کے پہلے ہفتے میں اغواء کرلیا گیا تھا ، پاکستان کے ایک نجی ٹی وی کے صحافی فیض اللہ خان کو کئی ہفتے قبل مشرقی صوبے کنڑ میں اغواء کیا گیا ۔

ذرائع کے مطابق وہ افغان انٹیلی جنس کی حراست میں ہیں ۔ سفارتی ذرائع نے کہا ہے کہ افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس افغان سفارتکاروں اور سفارتخانے کے دیگر ملازمین کو ہراساں کرتی ہے اور اس صورتحال کی وجہ سے پاکستانی سفارتکار خوف کی وجہ سے گھروں سے باہر نہیں نکلتے ۔ افغانستان میں صورتحال کی وجہ سے کابل میں پاکستانی سفارتکار اور دیگر ملازمین اپنے خاندانوں کو نہیں رکھ سکتے جبکہ دوسری طرف پاکستان میں افغان سفارتکار اور دیگر ملازمین اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی شہریوں کے اغواء اور لاپتہ ہونے میں افغان انٹیلی جنس ایجنسی کا کردار ہے ۔

سفارتی ذرائع نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں نیسپاک اور دیگر ان کارکنوں کا تحفظ کیا جائے جو پاکستانی مالی تعاون سے افغانستان میں تعمیراتی کاموں میں مصروف ہیں، انہوں نے کابل میں سفارتخانے اور دیگر شہروں میں پاکستانی قونصل خانے کے سفارتکاروں اور دیگر کارکنوں کے تحفظ کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دیگر پڑوسی ممالک کے شہریوں اور کارکنوں کے اغواء اور ان کے سفارتکاروں کے ہراساں کرنے کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن سب سے زیادہ مسئلہ صرف پاکستانی سفارتکاروں اور کارکنوں کو درپیش ہے ، انہوں نے کہا کہ ایسے بھی کئی واقعات ہوئے ہیں جو سفارتخانے کو رپورٹ نہیں کئے جاتے اور سفارتخانے کو بتانے کی بجائے مغوی افراد کی رہائی کیلئے تاوا ن ادا کر دیا جاتا ہے ، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کئی واقعات میں افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کی وساطت سے رہائی کیلئے تاوان دیا گیا ہے ، سفارتی ذرائع نے اپنی حکومت سے بھی درخواست کی ہے کہ ان کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی پالیسیاں اختیار کی جائیں تاکہ دوطرفہ بنیاد پر اپنے سفارتکاروں اور کارکنوں کا تحفظ کیا جاسکے

متعلقہ عنوان :