آئین کو تسلیم کرانے کا مطالبہ کرنے والے پہلے خود آئین کو تسلیم کرلیں،پروفیسرابراہیم، حکومت آئین پر عمل کرکے قبائلی عوام کو ان کے آئینی و قانونی حقوق دے،پاکستان اسلام کے نام پر بنایاگیا ،طالبان سے بھی آئین کو تسلیم کروالیں گے،فوج اور طالبان سے اپیل ہے خدا کیلئے بندوق رکھ کر مذاکرات سے معاملے کا حل نکالیں ،قبائلی جرگہ سے خطاب

جمعرات 1 مئی 2014 20:25

آئین کو تسلیم کرانے کا مطالبہ کرنے والے پہلے خود آئین کو تسلیم کرلیں،پروفیسرابراہیم، ..

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔1مئی۔2014ء) جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہاکہ آئین کو تسلیم کرانے کا مطالبہ کرنے والوں سے کہتا ہوں کہ وہ خود آئین کو تسلیم کرلیں ۔ حکومت آئین پر عمل کرے اور قبائلی عوام کو ان کے آئینی اور قانونی حقوق دے۔ قائد اعظم نے قبائل کو پاکستان کا بازوئے شمشیر زن قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ قبائل کی موجودگی میں مغربی سرحد پر ہمیں فوج رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ہم فوج اور طالبان دونوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ خدا کے لئے بندوق رکھ دیں اور مذاکرات سے معاملے کا حل نکالیں ۔ جب جرنیل اخبارات کی شہ سرخیوں میں لوگوں سے آئین کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کریں گے تو پھر لوگوں کو بھی معلوم ہوناچاہیے کہ کون آئین کو تسلیم کرتاہے اور کون تسلیم نہیں کرتا۔

(جاری ہے)

پشاورمیں قبائلی جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ فوج چاہے تو مسئلے کا حل نکل سکتاہے ۔

انہو ں نے کہاکہ جرنیلوں اور حکمرانوں کو بھی آئین کو کماحقہ تسلیم کرناچاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ مذاکرات کے اصل فریق طالبان اور فوج ہیں ۔ قبائلی عوام اور حکومت متاثرین ہیں ، فوج چاہے تو مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں اور چاہے تو ناکام ۔ہماری کوشش ہے کہ طالبان اور فوج کو ایک میز پر بٹھاسکیں ۔ ہم فوج اور طالبان دونوں کے سامنے حق بات کہتے اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہیں گے ۔

انہوں نے جنرل راحیل شریف سے درخواست کی کہ وہ فاٹا کے تعلیمی اداروں کو فوج سے خالی کریں تاکہ قبائلی بچے اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں ۔ اس موقع پر جماعت اسلامی فاٹا کے امیر اور سابق ممبر قومی اسمبلی صاحبزادہ ہارون الرشید نے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس کی تمام شرکاء نے ہاتھ اٹھا کر متفقہ طور سے منظوری دے دی مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جماعت اسلامی فاٹا کے زیراہتمام پاک افغان بارڈر پر واقع سینکڑوں میل لمبی حساس قبائلی پٹی کے 80لاکھ محروم ومظلوم محب وطن قبائلی عوام کایہ نمائندہ قبائلی امن جرگہ قراردیتاہے۔

کہ فاٹا کے عوام گزشتہ 67سال سے آئینی ،قانونی ،سیاسی ،جمہوری ،معاشی اور تعلیمی محرومیوں کا شکار چلے آرہے ہیں۔آئین پاکستان کی دفعہ 247کے مطابق فاٹا پارلیمنٹ اور عدلیہ کے دائرہ اختیار سے باہرہے۔گویا یہ دنیا کا واحد خطہ ہے۔جو آئینی طورپر سرزمین بے آئین بنادیاگیاہے۔یہی وجہ ہے کہ آئین پاکستان میں ملک کے شہریوں کو دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق (جان ،مال وعزت) کے تحفظ کا قبائلی عوام کے لئے کسی قسم کا انتظام نہیں ہے۔

رہی سہی کسر گزشتہ طویل عرصہ سے عالمی طاقتوں روس اور امریکہ کی فاٹا کے عوام پر مسلط کردہ جنگوں نے پوری کردی ہے۔مسلسل ڈرون حملوں ،بمباریوں گولہ باریوں اور فوجی آپریشنز کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ قبائلی عوام(بچے،عورتیں ،بزرگ) قتل ہزاروں زخمی لاکھوں بے گھر جبکہ لاکھوں نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔شہرکے شہر اور گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں اور یہ علاقہ عملی طورپر کھنڈر کا سماں پیش کررہاہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ فاٹا میں بدامنی اور انتشار پورے ملک اور خطے میں بدامنی اور انتشار کا سبب بن رہی ہے۔اور فاٹا میں امن واستحکام ہی سے پورے ملک اور خطہ میں امن واستحکام قائم ہوگا۔لہٰذا قبائلی امن جرگہ پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں اور وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کی قیادت میں آل پارٹیز قومی کانفرنس کی قرارداد کی روشنی میں ملک میں امن کے قیام کی خاطر حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کی بھرپور تائید کرتاہے۔

امن جرگہ اس مشکل اور صبر آزما مذاکراتی عمل کو نہایت احسن طریقے سے نبھانے پر دونوں مذاکرات کمیٹیوں کے ارکان کو خراج تحسین پیش کرتاہے۔جرگہ تمام سٹیک ہولڈرز (حکومت ،فوج،طالبان) سے امن کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے اور مذاکراتی عمل کو بارآور اور نتیجہ خیز بنانے کی پرزور اپیل کرتاہے۔نیز امن مذاکرات کی کامیابی کے خاطر سٹیک ہولڈرزسے جنگ بندی اور فائربندی میں توسیع کا مطالبہ کرتاہے۔جرگہ قبائلی عوام کی ہمہ جہت محرومیوں کے ازالہ کیلئے فاٹا میں ہمہ گیر آئینی ،قانونی ،سیاسی ،جمہوری، تعلیمی اور معاشی اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کرتاہے۔