امن کی چابی اسلام آباد میں ہے جس دن حکومت نے کھیل ختم کرنا چاہا کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا ،سراج الحق،آئین شکنی کرنیوالے قبائلی علاقوں میں نہیں اسلام آباد میں بیٹھے ہیں، داڑھی اور پگڑی والے دہشت گرد نہیں، دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد امریکہ ہے، بھارت کیساتھ تین جنگوں کے باوجود اسے پسندیدہ قوم قرار دینے والوں سے جب طالبان کیساتھ جنگ کی آگ پر پانی ڈالنے کا کہا جاتا ہے تو وہ تیل چھڑکنا شروع کر دیتے ہیں، پاکستان کے اٹھارہ کروڑ مسلمان اگر ملک میں شریعت کا نظام چاہتے ہیں تو یہ کوئی غلط مطالبہ نہیں، قبائلی علاقوں میں کبھی کسی نے پاکستان کا پرچم نہیں جلایا ،پشاورمیں قبائلی امن جرگہ سے خطاب

جمعرات 1 مئی 2014 20:25

امن کی چابی اسلام آباد میں ہے جس دن حکومت نے کھیل ختم کرنا چاہا کوئی ..

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔1مئی۔2014ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہاہے کہ امن کی چابی اسلام آباد میں ہے جس دن حکومت نے کھیل ختم کرنا چاہا کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا ۔آئین شکنی کرنے والے قبائلی علاقوں میں نہیں اسلام آباد میں بیٹھے ہیں۔ داڑھی اور پگڑی والے دہشت گرد نہیں ۔ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد تو امریکہ ہے۔ بھارت کے ساتھ تین جنگوں کے باوجود اسے پسندیدہ قوم قرار دینے والوں سے جب کہا جاتاہے کہ طالبان کے ساتھ جنگ کی آگ پر پانی ڈالیں تو وہ تیل چھڑکنا شروع کر دیتے ہیں ۔

پاکستان کے اٹھارہ کروڑ مسلمان اگر ملک میں شریعت کا نظام چاہتے ہیں تو یہ کوئی غلط مطالبہ نہیں ۔ قبائلی علاقوں میں کبھی کسی نے پاکستان کا پرچم نہیں جلایا ۔پاکستان کی حفاظت کے لیے ایٹم بم سے بھی زیادہ قبائلی عوام کا اعتماد ضروری ہے ۔

(جاری ہے)

قبائلی عوام بغیر تنخواہ کے پاکستان کی حفاظت کر رہے ہیں ۔ مذاکرات کی کامیابی پاکستان کی کامیابی اور ناکامی پاکستان کی ناکامی ہے ۔

قبائل پر باروداور لوہے کی بارش کرنے والے حکمران بتائیں انہوں نے 66سال میں قبائلی علاقوں میں کوئی یونیورسٹی ، کالج یا ہسپتال قائم کیاہے کیا قبائل کے ایک کروڑ عوام کا ملکی وسائل پر کوئی حق نہیں ؟ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی حلقہ قبائل کے زیراہتمام نشر ہال پشاور میں قبائلی امن جرگہ میں شریک ایک ہزار سے زائد قبائلی مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

جس میں فاٹاکی تمام قبائلی ایجنسیوں کی بھر پور نمائندگی موجود تھی۔ جرگہ سے طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق ، امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا و رکن طالبان رابطہ کمیٹی پروفیسر محمد ابراہیم خان ، مولانا یوسف شاہ ، سابق ایم این اے شاہ عبدالعزیز ، امیر جماعت اسلامی قبائل صاحبزادہ ہارون الرشید ، زر نور آفریدی اور قبائلی عمائدین نے بھی خطاب کیا۔

امن جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے سراج الحق نے کہاکہ تمام تر مصائب اور مشکلات جھیلنے کے باوجود آج بھی قبائل میں کسی نے پاکستان کا پرچم نہیں جلایااور قبائلی علاقوں کے سکولوں اور تعلیمی اداروں میں دن کا آغاز پاک سرزمین شاد باد سے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی قبائلیوں کو یہ نہ سمجھائے کہ پاکستانیت کیا ہوتی ہے۔ جیب میں گرین کارڈ رکھنے والے ہمیں یہ نہ بتائیں کہ پاکستان سے محبت کس طرح کی جاتی ہے۔

اس موقع پر سراج الحق نے ازخود پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوائے جس سے پورا نشتر ہال پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق نے مزید کہا کہ قبائلی عوام فوج اور طالبان کی لڑائی میں پس کر رہ گئے ہیں ۔ ایک کروڑ قبائلی عوام نے مذاکرات کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے ۔ عوام لاشوں کی نہیں امن ، علم اور ترقی وخوشحالی کی سیاست چاہتے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ قبائلی عوام نے ہمیشہ پاکستان کی سلامتی ، دفاع اور تحفظ کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں لیکن آج انہیں دہشتگرد قرار دیا جارہاہے ۔ انہوں نے کہاکہ اصل دہشتگرد وہ ہیں جنہوں نے آئین اور قانون کو پامال اور رشوت اور لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ خود قومی خزانے سے عیش و عشرت کرتے ہیں اور عوام پر غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری اور بدامنی کو مسلط کر رکھا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ہم ملک میں عد ل ، مساوات اور بھائی چارے کا ایسا نظام چاہتے ہیں جو چوکیدار کو بھی زندگی گزارنے کی وہی سہولتیں دے جو جاگیرداروں اور وڈیروں کو حاصل ہیں ۔ ہم چیف جسٹس کے ہاتھ میں قرآن پاک دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اگر پاکستان کا کوئی چیف جسٹس یہ کہتاہے کہ اسے قرآن پاک کی سمجھ نہیں آتی تو اسے اسلامی ملک کا نہیں ، کسی غیر اسلامی ملک کاچیف جسٹس ہوناچاہیے ۔

انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس تک پہنچنے کے لیے بھی جیب میں لاکھوں روپے ہونا ضروری ہیں جبکہ اسلام ہمیں ایسا نظام دیتاہے جس میں ایک چوکیدار بھی چیف جسٹس تک اپنی بات پہنچا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بعض لوگ فرنٹئیر کرائمز ریگولیشنز (FCR) کو تمام بیماریوں کا حل سمجھتے ہیں۔اگر واقعی ایف سی آر اتنا اچھا قانون ہے تو اسے اسلام آباد میں لاگو کیا جائے کیونکہ زیادہ بیماریاں تو اسلام آباد میں ہیں۔

سراج الحق نے حکمرانوں سے واضح اور دوٹوک انداز میں اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ امن کے لئے پشاور سے اٹھنے والی قبائلی عوام کی فریاد کو سنیں اور اگر وہ نہیں سنیں گے تو پھر وہ قبائلی عوام کو لے کر اسلام آباد کا رخ کریں گے ۔ تاکہ حکمرانوں کو زیادہ قریب سے قبائلی عوام کا دکھڑا سنا سکیں ۔امن جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق نے کہاکہ جب سے مذاکرات کا آغاز ہواہے ، ڈرون حملے بند ہو گئے ہیں ۔

امریکہ مذاکرات کا مخالف ہوتا تو صدر اوباما مذاکراتی عمل کو کیوں سراہتے ؟ انہوں نے کہاکہ دونوں فریق ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی بجائے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی کوشش کریں ۔ نوازشریف ، چوہدری نثار علی خان مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں ان کی مشکلات کا صرف ایک حل ہے اور وہ مذاکرات کی کامیابی ہے ۔ ملک میں امن ، استحکام اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ مذاکرات کو جاری رکھا جائے ۔ انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کہتی ہے کہ قبائل ہمارے اختیار میں نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ قبائلی عوام سے امتیازی سلوک کیوں برتا جارہاہے ۔ انہوں نے کہاکہ قبائلی علاقوں میں استحکام سے ہی ملک کا استحکام وابستہ ہے ۔