مذاکرات کی کامیابی کیلئے طالبان سیکیورٹی فورسز ،فورسز طالبان کیخلاف فضائی حملے بند کردیں ،پروفیسرابراہیم، خود کش حملوں سے شریعت نافذ ہوسکتی ہے نہ ہی فضائی حملوں اور آپریشنوں کے ذریعے امن قائم ہوسکتا ہے،امن ہوگا تو شریعت کا نفاذ بھی آسانی سے ہو سکے گا،مذاکرات کوکامیاب بنانے کیلئے کوشاں ہیں،پشاورمیں میڈیا سے گفتگو

منگل 29 اپریل 2014 21:29

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔29اپریل۔2014ء) جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر اور طالبان رابطہ کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ مذاکرات کو کامیاب اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے طالبان سیکورٹی فورسز پر حملے اور فورسز طالبان کے خلاف فضائی حملے اور آپریشن بند کردیں ۔ نہ خود کش حملوں سے شریعت نافذ ہوسکتی ہے اور نہ ہی فضائی حملوں اور آپریشنوں کے ذریعے امن قائم ہوسکتا ہے۔

احرارالہند کا نام اسلام آباد واقعے کے بعد سنا گیا ۔ اس سے پہلے اس تنظیم کے نام سے واقف نہیں تھا۔تاہم اگر ان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان ہوا ہے تو یہ کو خوش آئندہے۔ دنیا میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جنگوں کے دوران فریقین کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے ہیں تاہم اس کے نتیجے میں مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

اس لئے ہماری کوشش ہے کہ دونوں فریقین مستقل جنگ بندی کا اعلان کردیں ۔

دونوں کمیٹیوں نے پہلے بھی فریقین سے پرتشدد کاروائیاں بند کرنے کی اپیل کی تھی کیونکہ اس سے مذاکراتی عمل پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے المرکز اسلامی میں میڈیا نمائندوں کو الگ الگ انٹریو دیتے ہوئے کیا۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے مزید کہا کہ وزیرا عظم میاں نواز شریف کی صدارت میں قومی سلامتی کے حوالے جو اجلاس ہوا ہے اس میں بھی وزیر اعظم نے مذاکرات کو جاری رکھنے کی بات کی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ مذاکراتی عمل تیز رفتاری سے آگے بڑھے کیونکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جنگ بندی ختم ہوچکی ہے اور دونوں طرف سے کاروائیاں ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم فوج اور طالبان دونوں طرف سے عسکری کاروائیوں کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ دونوں اطراف سے عسکری کارروائیاں بند ہوجائیں تاکہ امن مذاکرات تیزی سے آگے بڑھیں ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک میں نفاذ شریعت کے لئے ہم نے اپنی جانیں وقف کی ہوئی ہیں اور پاکستان تو بنا ہی شریعت کے نفاذکے لئے ہے ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس وقت امن کا قیام ہماری اولین ترجیح ہے۔ امن ہوگا تو شریعت کا نفاذ بھی آسانی سے ہو سکے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طالبان سے رابطوں میں مشکلات پیش آرہی ہیں اور مولانا یوسف شاہ نے کچھ رابطے کئے ہیں ۔

امید ہے چند روز میں دونوں کمیٹیوں کی طالبان شوریٰ کی کمیٹی سے ملاقات ہوجائے گی۔ہمیں طالبان کے جواب کا انتظار ہے۔ میجر عامر کے حوالے سے کئے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میجر عامر کا مذاکرات میں کردار بڑا مثبت ہے اور ان کا مذاکراتی عمل سے علیحدگی کا اعلان مذاکرات کے لئے نقصان دہ ہے۔

ہم ان سے درخواست بھی کریں گے اور کوشش بھی کریں گے کہ وہ مذاکراتی عمل کا حصہ رہیں۔

اگر کوئی غلط فہمیاں ہیں تو انشاء اللہ ان کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چیف آف ائیر سٹاف کا یہ بیان قابل افسوس ہے وہ طالبان کے خلاف آپریشن کے لئے تیار ہیں۔ میں چیف آف ائیر سٹاف اور چیف آف آرمی سٹاف سے پوچھتا ہوں کہ جب امریکی درندے سلالہ چیک پوسٹ پر دو گھنٹے تک آپریشن کرکے ہمارے جوانوں کو شہید کررہے تھے اور ہمارے بمبار طیارے پانچ منٹ میں وہاں پہنچ سکتے تھے ۔

اس وقت چیف آف ائیر سٹاف اور آرمی چیف کہاں تھے؟ اپنے جوانوں کو اس طرح امریکہ کے ہاتھوں شہید کروانا کیا جرم نہیں تھا؟ ہم فوج ،قوم اور طالبان کو متحد کرکے تمام دشمنوں بشمول امریکہ اور بھارت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانا چاہتے ہیں۔ فوج اور طالبان ایک دوسرے سے الگ نہیں ۔ ہم دونوں کو بھائی کہتے ہیں اور دونوں کے درمیان اس لڑائی کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔

بھائی کے ہاتھوں بھائی کا خون بہنا ہمیں کسی صورت گوارا نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کام طالبان اور حکومت کو قریب تر لانا ہے ۔ طالبان اور حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے اعلانات ہماری بہت بڑی کامیابی تھی۔ مذاکرات کا آنے والا دور نہایت اہم ہے کیونکہ اس میں طالبان کی طرف سے تفصیلی مطالبات اور حکومت کا جواب سامنے آئے گا۔ ہم مشترکات اور اتفاقات کو تلاش کرکے اختلافات کا تصفیہ کرنے کی اپنی بھر پور کوشش کریں گے۔

متعلقہ عنوان :