حکومت گرانٹ میں اضافہ کردے تو تمام صوفیائے کرام کا عرس بھرپور طریقے سے مناسکتے ہیں ،شرمیلا فاروقی ،کوشش ہوگی کہ صوبے کے تمام اضلاع میں کم از کم سال میں ایک مرتبہ کلچرل شو کا انعقاد ممکن ہوسکے،مشیر ثقافت کا وقفہ سوالات میں جواب

پیر 28 اپریل 2014 22:03

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔28اپریل۔2014ء) وزیر اعلی سندھ کی معاون خصوصی برائے سیاحت وثقافت شرمیلا فاروقی نے کہا ہے کہ حکومت اگر ہمیں گرانٹ میں اضافہ کردے تو ہم صوبے بھر کے تمام اولیاء کرام اور صوفیائے کرام کے عرس بھرپور طریقے سے منا سکتے ہیں اوروہاں پر ثقافتی سرگرمیوں کو بھی فروغ دے سکتے ہیں۔ آنے والے سالوں میں ہماری یہ کوشش ہوگی کہ صوبے کے تمام اضلاع میں کم از کم سال میں ایک مرتبہ کلچرل شو کا انعقاد ممکن ہوسکے۔

وہ پیر کو سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران مختلف ارکان کی جانب سے پوچھے گئے ضمنی سوالات کے جوابات دے رہی تھیں۔ ارکان کی جانب سے پوچھے گئے تحریری سوالوں کے وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ کی جانب سے ملنے والے جوابات میں بتایا گیا کہ صوبے میں ہر سال پانچ صوفی بزرگان کے عرس محکمہ ثقافت کے تحت منائے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

جن میں شاہ عبداللطیف بھٹائی، لعل شہباز قلندر، سچل سرمست، قادر بخش بیدل اور سخی جام داتار کا عرس شامل ہیں۔

شرمیلا فاروقی نے بتایا کہ ان میں سے تین اولیاء کرام کے عرس محکمہ ثقافت کے فنڈ سے جبکہ قادر بخش بیدل اور سخی جام داتار کے عرس ضلعی حکومت اور محکمہ اوقاف کی مدد سے منائے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ صوبے بھر میں سینکڑوں اولیاء کرام کے مزارات میں عرس کا انعقاد محکمہ اوقاف اور متعلقہ ضلعی انتظامیہ کے اشتراک سے منعقد کئے جاتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ارکان کو بتایا گیا کہ سال 2008ء سے 2013ء تک سندھ بھر میں محکمہ ثقافت کے تحت 450 ثقافتی میلوں کا انعقاد کیا گیا جبکہ سال 2012ء ، 2013ء کے درمیان تیونس اور یو اے ای (دبئی) میں بھی ایک ایک شو منعقد کئے گئے۔

ارکان کے ضمنی سوال کے جواب میں شرمیلا فاروقی نے بتایا کہ 2008ء سے 2013ء کے درمیان کئی اضلاع میں میلوں کا انعقاد نہیں ہوسکا۔ جس کی بڑی وجہ فنڈز کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال ہماری کوشش رہی کہ زیادہ سے زیادہ اضلاع میں ان میلوں کا انعقاد کیا جاسکے۔ تاہم اس مرتبہ بھی فنڈز کی کمی آڑے آئی۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے سال کے دوران ہم کوشش کررہے ہیں کہ صوبے کے تمام اضلاع میں کم از کم ایک ثقافتی میلا منعقد کیا جائے اور اس کے لئے محکمہ سیاحت وثقافت اقدامات کررہا ہے۔

ارکان کے تحریری سوال کے جواب میں ایوان کو بتایا گیا کہ سندھ حکومت نے یکم جنوری 2010ء سے لے کر 31 اگست 2013ء تک محکمہ ثقافت میں 136 ملازمین کو مختلف اضلاع، گریڈ اور عہدوں پر ملازمتیں فراہم کی ہیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی کے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بتایاگیا کہ تاریخی کوٹ ڈیجی قلعہ محفوظ ورثہ ہے۔ اس کو نوادرات ایکٹ 1975 کے تحت محفوظ کیا گیا ہے اور وفاقی حکومت کی جانب سے اس قلعے کو محکمہ ثقافت میں اکتوبر 2010ء کو منتقل کیا گیا۔

ایوان کو بتایا گیا کہ اس قلعے کی حالت اتنی زیادہ خراب نہیں ہے تاہم وقت گزرنے اور موسمی اثرات سے کچھ مسائل ضرور درپیش ہیں اور اس کی اینٹوں کے ڈھانچے متاثر ہوئے ہیں۔ محکمہ ثقافت نے 33 کروڑ 30 لاکھ روپے کی لاگت سے 19 اکتوبر 2012ء کو ایک سمری منظور کی اور کوٹ ڈیجی قلعے کے تحفظ کے لئے ہنگامی اسکیم شروع کی گئی۔ موجودہ مالی سال کے دوران اس قلعے کے تحفظ کے لئے ایک کروڑ روپے جاری کئے گئے ہیں، جن میں سے 35 لاکھ روپے مختلف کاموں کی مد میں اب تک خرچ کئے جا چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کوٹ ڈیجی کو 16 اگست 1956ء کو محفوظ قرار دیئے جانے کے بعد سے وہاں موجود بندوقیں، توپیں یا دوسری اشیاء چوری نہیں ہوئیں۔ نصرت سحر عباسی کے ایک اور سوال کے جواب میں وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ کی جانب سے موصول جواب میں کہا گیا کہ 31 جنوری 2009ء سے لے کر 30 ستمبر 2013ء کے دوران مختلف ادیبوں، شاعروں اور اداکاروں کی مالی مدد کی گئی اور ان کے علاج معالجے کے لئے فنڈز جاری کئے گئے۔

متعلقہ عنوان :