طالبان شوریٰ سے رابطہ ہو چکا ، ملاقات کیلئے وقت اور جگہ کا تعین کیا جارہا ہے ، طالبان قیادت جب بھی بلائے گی روانہ ہو جائیں گی ، پروفیسر ابراہیم

پیر 28 اپریل 2014 16:35

پشاور /لندن (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 28اپریل 2014ء) کالعدم تحریک طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ طالبان شوریٰ سے رابطہ ہو چکا ہے ، ملاقات کیلئے وقت اور جگہ کا تعین کیا جارہا ہے ، طالبان قیادت جب بھی بلائے گی روانہ ہو جائیں گی ، فریقین کے مابین شکایات کے خاتمے کیلئے سب کمیٹی قائم کی جا رہی ہے ، مذاکرات کے آگے بڑھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ، مسئلہ دس بارہ سال پرانا ہے ، بہت پیچیدگیاں ہیں ، دونوں طرف سے مذاکرات کے عمل کو جاری رکھنا کا عزم ایک مثبت پہلو ہے ، یقینا مذاکرات کے ذریعے ہی ملک میں امن قائم ہو گا۔

ایک انٹرویو میں پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ اب طالبان کے جواب کا انتظار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ طالبان قیادت جب بھی بلائے گی وہ روانہ ہوجائیں گے۔

(جاری ہے)

پروفیسر ابراہیم نے بتایا کہ حکومتی کمیٹی نے ا ن سے ملاقات کے لئے طالبان سے رابطہ کرنے کے لئے کہا تھا۔ پروفیسر ابراہیم نے کہاکہ طالبان نے مذاکرات پر مشاورت کیلئے ایک دو روز مانگے ہیں۔ اب دونوں فریقین کو مزید پیش رفت کیلئے تفصیلی مطالبات پیش کرنے چاہیں۔

پروفیسر ابراہیم نے بتایا کہ 23 اپریل کو وزیر داخلہ نے طالبان شوریٰ سے رابطے کا ٹاسک دیا تھا کمیٹی کے کوآرڈینیٹر مولانا یوسف شاہ کا طالبان سے رابطہ ہو گیا ہے طالبان کی جانب سے دو دن میں ملاقات کے حوالے سے جواب مل جائے گا اور جگہ کا تعین کر دیا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ س سے قبل بھی مذاکرات فاٹا میں ہوئے تھے اور اس بار بھی حکومتی اور طالبان رابطہ کمیٹی طالبان شوریٰ سے قبائلی علاقے میں ملے گی جگہ کا تعین ایک دو دن میں ہو جائیگا پروفیسر ابراہیم کے مطابق مذاکرات کا ایجنڈہ امن ہے مذاکرات کیلئے جنگ بندی ضروری ہے اور دونوں فریقین کو جنگ بندی پر آمادہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ جنگ بندی عارضی ہو گی تاہم اسے مستقل کرنے کی خواہش ہے۔ طالبان رابطہ کمیٹی کے رکن نے کہا کہ دہشتگردی کے کچھ واقعات ہوئے جس کے بعد فوج کی جانب سے فضائی کارروائی کی گئی۔ انہوں نے کہاکہ فریقین کے مابین شکایات کے خاتمے کیلئے سب کمیٹی قائم کی جا رہی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں پروفیسر ابراہیم نے کہاکہ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی حکومت سے مذاکرات کرنے کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی کے رابطہ کار پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ اصل مذاکرات تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئے اور ایسا اس وقت ہی ممکن ہے جب طالبان کی شوریٰ کی طرف سے تفصیلی مطالبات موصول ہو جائیں گے۔

پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ وزیرداخلہ سے آخری ملاقات میں یہ طے پایا تھا کہ حکومتی اور طالبان کمیٹی کی ملاقات طالبان کی شوریٰ سے کروائی جائے اور اس بارے میں پیغام طالبان کی شوریٰ تک پہنچا دیا گیا ۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ مذاکرات کے آگے بڑھنے میں کوئی رکاوٹ ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ مسئلہ دس بارہ سال پرانا ہے اور اس میں بہت پیچیدگیاں ہیں جن کے باعث بعض اوقات مذاکرات تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں اور شدت پسندوں کے خلاف آپریشنز کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ مذاکرات اور جنگ کو ساتھ ساتھ چلانے میں بڑی دشواریاں ہوں گی۔پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ اس سارے عمل میں منفی پہلو بھی ہیں اور مثبت پہلو بھی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دونوں طرف سے مذاکرات کے عمل کو جاری رکھنا کا عزم ایک مثبت پہلو ہے اور یقینا مذاکرات کے ذریعے ہی ملک میں امن قائم ہو گا۔

پروفیسر ابراہیم نے کہاکہ ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں نمایاں حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک وہ وقت تھا جب ملک کے کئی شہروں میں کئی دھماکے ہوتے تھے تاہم اب اکا دکا کارروائیاں ہوتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ واقعات افسوسناک ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ یہ واقعات مکمل طور پر ختم ہوجائیں اور ملک میں امن قائم ہو جائے۔

متعلقہ عنوان :