آرمی چیف کا بیان ‘ فوج اور نواز شریف حکومت میں کشیدگی ہے ‘ امریکی اخبار

پیر 21 اپریل 2014 17:18

لاس اینجلس (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 21اپریل 2014ء) امریکی اخبار”لاس اینجلس ٹائمز“ نے کہاہے کہ پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بیان نے واضح اشارہ دیا کہ فوج اور نواز شریف حکومت میں کشیدگی ہے۔نجی ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں غیر ملکی اخبار کے حوالے سے بتایا کہ اسلام آباد میں ایک سنیئر سیکورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فوجی قیادت اس تاثر میں تھی کہ سویلین حکومت اور عدلیہ مشرف کے معاملے میں ریڈ لائن عبور نہیں کرے گی اور فرد جرم عائد ہونے کے بعد انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے گی۔

فوج کے اندر اس دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے کہ سویلین حکومت کی طرف سے فوج کوبدنام کیا جا رہا ہے۔ فوج اور نواز شریف کے تعلقات نے امریکہ کے سامنے ایک مشکل صورت حال پیدا کردی ہے جو چاہتے ہیں کہ نواز شریف حکومت جمہوری اصلاحات کے نفاذ، اقتصادی اور توانائی کے بحران سے نمٹنے اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنائے۔

(جاری ہے)

اوباما انتظامیہ پاک فوج کی منشاء کی حمایت کرتی نظر آئی کہ وہ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کا تعاقب کرے۔

امریکی حکام کو خدشہ کہ اتحادی افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد تحریک طالبان پاکستان آزادانہ افغانستان میں نقل و حرکت کریں گے پاکستانی فوج نے کبھی اشارہ دیا کہ وہ قبائلی علاقے میں کارروائی کریں گے۔امریکی تھنک ٹینک کے مطابق سویلین حکام کی حمایت کے بغیر فوج ایسی کارروائی نہیں کرے گی۔ واشنگٹن اوردیگر چاہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کو نشانہ بنانے کے لئے ایک مربوط حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے تاہم کوئی بھی آپریشن سویلین حکومت کی مرضی اور کنٹرول کے بغیر شروع نہیں کرنا چاہتا،پاک فوج بھی ایسا نہیں کرے گی ،وہ سیاسی تحفظ چاہے گی۔

اخبار کے مطابق کچھ اشارے واضح ہیں کہ نواز شریف کے پاس محدود راستے ہیں خاص کر عسکریت پسندوں سے بات چیت میں،بھارت کے ساتھ تعلقات پر بھی نواز شریف اور فوج میں ہم آہنگی نہیں۔ بھارت کو تجارتی رعاتیں دینے کی فوج نے مخالفت کی ہے۔ایک سنیئر بھارتی عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ موسم گرما میں انتخابات میں کامیابی کے بعد نواز شریف کے ابتدائی اعلان کے باوجود بھارت کے متعلق پاکستان کانقطہ نظربنیادی طور پر ایک ہی رہتا ہے۔

پاکستان کے سویلین حکام اکثر اوقات ترکی میں ایک طاقتورفوج کی طرف سے وزیر اعظم رجب طیب اردگان کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو اتھارٹی حوالے کرنے کی مثال دیتے ہیں تاہم وہاں یہ تبدیلی کا عمل بتدریج ہوا ،وہاں اقتصادی اور داخلی امور سے نمٹ کر اعتماد حاصل کیاگیا، پاکستانی حکومت کو ابھی یہ سب کرکے دکھا نا ہے۔پاک فوج کے ایک سابق جرنیل کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت پہلے سال میں یہ سب کرنے کی کوشش میں ہے جب کہ ترکی میں یہ تین مدتی اقتدار کے بعد یہ تبدیلی آئی۔

فوج اس قوم کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اسے کونے سے لگانے یا بدنام کرنے کی کسی کوشش پر رد عمل کا اظہار کرے گی۔اخبار کے مطابق زیادہ تر پاکستانی تاریخ میں طاقتور فوج منتخب حکام پر اثر انداز ہوئی یاانہیں اختیارات سے محروم کیا گیا، صرف نواز شریف سے اس متعلق پوچھا جا سکتا ہے جنہیں 15برس قبل وزارت عظمیٰ سے معزول کردیا گیا اور اب ان کی نئی سویلین حکومت کو دھکیلا جا رہا ہے۔

جون میں اقتدار میں آنے کے بعد ان کی حکومت نے قید میں عسکریت پسندوں کی گمشدگی کے خلاف فوجی جرنیلوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ،فوج کی منشاء کے خلاف طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ متنازعہ امن عمل میں مصروف ہیں۔حال ہی میں نوازشریف نے پرویز مشرف کا تعاقب کیا جس نے انہیں1999میں اقتدار سے بے دخل کیا۔گزشتہ ماہ سابق فوجی حکمران پرغداری کے الزامات پر فرد جرم عائد کردی گئی۔

پہلی بار اپنے عہدے کے ایک حاضر سروس یا سابق فوجی اہلکار کوطاقت کے غلط استعمال پر مقدمے کی سماعت کا سامنا ہے۔ حکومت اور عدالتوں نے بیرون ملک ان کی طبی علاج کے لئے مشرف کی اپیل کو ماننے سے انکار کردیا۔2008سے فوج نے اپنے آ پ کو سیاست سے دور رکھا ہے ۔سویلین حکومت کے جارحانہ بیانات پر فوج میں غصے کی لہر پیدا ہوئی۔گزشتہ دنوں فوجی سربراہ نے ملٹری بیس کے دورے میں اس غصے کی لہر کااظہار کیا۔ ایک سیاسی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو زیادہ احتیاط سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے،سول ملٹری تعلقات کوبہت زیادہ خوشگوار راہ پر رکھنے کی ضرورت ہے۔