طالبان کے دھڑے آپس میں لڑرہے ہیں، قیادت کا فقدان ہے ‘امن مذاکرات کا مستقبل خطرہ میں پڑ گیا ہے ‘ امریکی اخبار

پیر 21 اپریل 2014 17:00

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 21اپریل 2014ء) امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مختلف دھڑوں میں لڑائی اور قیادت کے فقدان کے باعث حکومت پاکستان سے امن مذاکرات کا مستقبل خطرے میں پڑگیا ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق امریکی اخبار میں معروف صحا فی ڈیکلن واش نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھا کہ مذاکرات میں جنگ بندی کے دوران مختلف بم دھماکوں نے اس بات کو تقویت دی ہے کہ قیام امن کی کوششوں نے خود طالبان کو مختلف دھڑوں میں تقسیم کردیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت کالعدم تحریک طالبان پاکستان انتشار کا شکار ہے اور اندرونی لڑائی کے نتیجے میں اس کے 40 سے زائد جنگجو مارے جاچکے ہیں، طالبان کے گروپوں میں یہ لڑائی قیادت سنبھالنے کے مسئلے پر ہورہی ہے۔

(جاری ہے)

طالبان کے سابق امیر حکیم اللہ محسود گزشتہ نومبر میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے جس کے بعد ملا فضل اللہ کو نیا امیر مقرر کیا گیا تھا اور ایسا پہلی بار ہوا کہ طالبان کی قیادت محسود قبائل کے باہر سے لی گئی اور اسی بات نے اختلافات کو جنم دیا ہے۔

ملافضل اللہ کی نامزدگی سے امید تھی کہ وہ محسود قبائل کے درمیان جاری لڑائی کو ختم کرانے میں کامیاب رہیں گے تاہم وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس سے ان کی اپنی پوزیشن بھی کمزور ہوئی ہے اس وقت خان سید سجنا اور شہریار محسود کے درمیان کالعدم تحریک طالبان کے محسود دھڑے کی قیادت سنبھالنے پر جھگڑا ہے، خان سید سجنا کا تعلق حقانی گروپ سے بتایا جاتا ہے ۔

حقانی گروپ اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر کالعدم طالبان پر حکومت پاکستان سے مذاکرات کیلئے دباوٴ بھی ڈال رہا ہے، تاہم دیگر گروپ اس کے حامی نہیں۔ رپورٹ کے مطابق طالبان پر دیگر بیرونی گروپس بھی اثر انداز ہوتے ہیں جن میں ازبکستان اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے غیرملکی جہادی شامل ہیں جو نہ صرف جنوبی اور شمالی وزیرستان میں موجود ہیں بلکہ پیسہ اور شدت پسند مذہبی نظریے کے بھی حامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے کیلئے افغان انٹیلی جنس ایجنسی بھی سرگرم ہوگئی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ طالبان کو پاکستانی سرحدی علاقوں تک محدود رکھے اور اس کیلئے اس نے طالبان کے مختلف دھڑوں کومحفوظ پناہ گاہیں اور مالی امداد دینے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے، ملافضل اللہ کو افغانستان میں پناہ اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیاکہ افغانستان کی جانب سے پاکستان میں طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور وہاں جنگ جاری رکھنے کا مقصد پاکستانی اداروں کی ان کوششوں کا جواب ہے جن کا مقصد امریکی انخلا کے بعد پاکستانی قبائلی علاقوں میں لڑی جانے والی جنگ کو افغانستان دھکیلنا ہے۔

کالعدم طالبان پاکستان کی جانب سے سیزفائر کے خاتمے کا اعلان ہوچکا ہے تاہم انہوں نے مذاکرات جاری رکھنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ دوسری جانب حکومت پاکستان نے بھی طالبان کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کچھ طالبان قیدیوں کو رہا کیا اور دیگر مطالبات پر بھی غور کیا جارہا ہے،یہ وہ تمام مشکلات ہیں کہ جس نے حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات اور قیام امن کے معاہدے کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔

متعلقہ عنوان :