زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سائنس دانوں نے چمگادڑوں کی دو نئی نسلیں دریافت کرلیں، پھل خور چمگادڑ عمل بارآوری ‘ بیجوں کی بکھیر اور قدرتی جنگلات کی تخلیق نو میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ڈاکٹر محمود الحسن

اتوار 20 اپریل 2014 15:56

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سائنس دانوں نے چمگادڑوں کی دو نئی نسلیں ..

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20اپریل۔2014ء) زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سائنس دانوں نے چمگادڑوں کی دو نئی نسلیں دریافت کرکے عالمی سظح پر حیوانیات کے شعبہ میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کرلی۔ یونیورسٹی کے شعبہ زوالوجی و ماہی پروری میں امریکہ کی بیٹ کنزرویشن انٹر نیشنل (BCI)کی مالی معاونت سے ڈاکٹر محمود الحسن کی زیرنگرانی پی ایچ ڈی سکالر محمد سلیم کی تحقیق میں بتایاگیاہے کہ چمگادڑیں کرہ ارض پر قدرتی ماحول کے توازن اور تنوع کو برقرار رکھنے کیلئے انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

ڈاکٹرمحمود الحسن کے مطابق حشرات خور چمگادڑ فصلوں کے نقصان دہ اور جانوروں میں موذی امراض کے پھیلاؤ کا باعث بننے والے کیڑوں کے تدراک کا قدرتی علاج ہیں جبکہ پھل خور چمگادڑ عمل بارآوری ‘ بیجوں کی بکھیر اور قدرتی جنگلات کی تخلیق نو میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر محمود الحسن کا کہنا ہے کہ تین سو سے زائد اقسام کے پھلدار پودے جن میں آم‘ کیلا‘ پپیتا ‘کھجور اور انجیر وغیرہ شامل ہیں ‘ اپنی بارآوری کیلئے پھل خور چمگادڑوں پر انحصار کرتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق حشرات خور چمگادڑ اپنی مثالی اثرپذیری کی وجہ سے فصلوں پر نقصان دہ کیڑوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی لا کر کیڑے مار ادویات کی درآمد پر صرف ہونے والے کثیر سرمائے کوبچانے میں بھی معاون ثابت ہورہے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق پاکستان میں قدرتی جنگلات تیزی سے تباہی کا شکار ہونے کی وجہ سے چمگادڑ اب تیزی سے انسانی آبادیوں کا رخ کررہے ہیں اور دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نیپاہ ‘ایبولا ‘سارس ‘ ہینڈرااورMERSجیسے خطرناک وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بن کر موذی بیماریاں انسانوں تک پہنچانے کے امکانات بڑھا سکتے ہیں۔

چمگادڑوں کی مذکورہ دو نئی نسلوں کو سائنسی حوالے سے “منی اوپ ٹرس فیولی جی نوسس“ور“مائی اوٹس فارموسس“کا نام دیاگیاہے ۔ اولذکر مالا کنڈ کے علاقے بر چڑئی ڈیم سے جبکہ ثانی الذکر دیر کے علاقے چنئی غز،سوات کے وچ خوڑ اور مالا کنڈ کے علاقے بر چڑئی ڈیم سے ریکارڈ ہوئی اوریوں اب پاکستان کے چمگادڑوں کی تعداد 55جبکہ ممالیہ جانوروں کی تعداد 196تک پہنچ گئی ہے۔عالمی سطح پر ماہرین حیوانیات ڈاکٹر محمود الحسن کی اس دریافت کو اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں کیونکہ تقریبا پچاس سال قبل زیڈ بی مرزا نے پاکستان سے کسی ممالیہ جانور کو دریافت کیا تھا ۔

متعلقہ عنوان :