سینیٹ میں پیپلزپارٹی کا طالبان قیدیوں کی رہائی پر تشویش کا اظہار،حکومت طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرے ،سینیٹر رضا ربانی ،پاکستان کے دشمن اس وقت بہت متحرک ہیں سب سے متحرک افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ہے ،رحمن ملک ،عسکریت پسندوں کو عام معافی دینا پالیسی نہیں ،ایسی کوئی پالیسی بنائی گئی ہے تو آگاہ کیا جائے ،فرحت اللہ بابر

جمعرات 17 اپریل 2014 23:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17اپریل۔2014ء) سینیٹ میں پیپلزپارٹی نے طالبان قیدیوں کی رہائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرے ،عسکریت پسندوں کو عام معافی دینا پالیسی نہیں ،ایسی کوئی پالیسی بنائی گئی ہے تو آگاہ کیا جائے جمعرات کو پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ حکومت نے بعض طالبان قیدیوں کو رہا کیا ہے اس کے باوجود دوسری طرف سے جنگ بندی میں توسیع نہیں کی گئی، بتایا جائے جن قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے ان پر کیا الزامات تھے یا ان پر کون سی دفعات تھیں، حکومت صورتحال پر اپنی پوزیشن واضح کرے، اگر مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے تو دوسرے آپشن کی طرف بڑھا جائے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ گورنر خیبرپختونخوا نے عسکریت پسندوں کے لئے عام معافی کے حوالے سے جو بیان دیا ہے وہ مناسب نہیں، ان کا بیان انتہائی اہمیت کا حامل پالیسی بیان ہے یا تو وفاقی حکومت یا پھر گورنر اس بیان سے لاتعلقی کا اعلان کریں، عسکریت پسندوں کو عام معافی دینا پالیسی نہیں ہے، اگر ایسی کوئی پالیسی بنائی گئی ہے تو ہمیں آگاہ کیا جائے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخواہ کے نئے گورنر نے حلف لینے کے ساتھ ہی جو بیان دیا ہے اس کے بہت تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔ کیا نئے گورنر کا تقرر اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے متعلق اس نئی پالیسی پر عملدرآمد کروائی؟ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ عام معافی کا مطلب یہ ہوگا کہ حکومت کی حراست میں نہ صرف مجرموں کو رہا کر دیا جائے بلکہ ان لوگوں کو بھی جو کسی جرم میں گرفتار ہوئے ہیں، ان پر مقدمہ چلا ہے اور انہیں سزا ہوئی ہے اور اب وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

اس انداز سے پاکستان سکیورٹی کے پیمانے کو تبدیل کرنا سکیورٹی کے ان اہلکاروں کے مورال کو کم کرے گا جنہوں نے عسکریت پسندوں سے لڑتے ہوئے عظیم قربانیاں پیش کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عام معافی قومی تحفظ کے لئے تباہ کن ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پالیسی بیان گورنر اپنی ذاتی حیثیت میں نہیں دے سکتا کیونکہ گورنر وفاقی حکومت کا اعلیٰ ترین نمائندہ ہے اور نہ صرف یہ کہ وہ وفاقی حکومت کے نمائندے ہیں بلکہ قبائلی علاقوں کے لئے صدر پاکستان کے ایجنٹ بھی ہیں۔

یہ بات سمجھ آنے والی نہیں کہ انہوں نے اتنا اہم بیان بغیر وفاقی حکومت کی ہدایات یا علم کے دیا ہو۔ انہوں نے وفاقی حکومت سے کہا کہ گورنر کے اس بیان کی وضاحت کی جائے اور اگر یہ بیان صحیح ہے تو قوم کو اس کے بارے میں اعتماد میں لیا جائے۔سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ ہم نے مذاکرات اور امن کو موقع دینے کا خیر مقدم کیا لیکن طالبان ملک کے اندر ایک ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جس کی حکومت نے اجازت نہیں دی جس پر حکومت کو سراہتے ہیں، پاکستان کے دشمن اس وقت بہت متحرک ہیں سب سے متحرک افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ہے، فضل اللہ آج بھی افغانستان کی گود میں بیٹھا ہے، حکومت اسے افغانستان سے مانگے، کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ طالبان نے بے نظیر بھٹو اور جنرل نیازی کو شہید کیا، آنے والے وقتوں میں اور بھی دہشت گردی ہو گی، دہشت گردی کے تمام تانے بانے طالبان سے ملتے ہیں، تمام طالبان کی نانی ایک ہے خواہ وہ پاکستان کے ہوں یا افغانستان کے، ہم سب کو مل کر پاکستان کو محفوظ بنانے کے لئے کام کرنا چاہیے۔

سینیٹر روزی خان کاکڑ نے کہا کہ آواران کے زلزلہ زدگان کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں۔ آواران میں شہریوں کو پاسپورٹس کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین نے کہا کہ آواران میں ابھی تک لوگوں کے گھر دوبارہ نہیں بنے، حکومت عوام کے مسائل کے حل کیلئے اقدامات کرے۔ سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ کسانوں کو درپیش مشکلات کا ازالہ کیا جائے، گندم کی قیمت خرید پر نظرثانی کر کے مناسب قیمت مقرر کی جائے، کسان واحد طبقہ ہے جس کی پیداوار کی قیمت کا تعین خریدنے والا کرتا ہے، وفاقی و صوبائی حکومتیں اس مسئلے پر توجہ دیں۔

ڈپٹی چیئرمین نے قائد ایوان راجہ ظفر الحق کو ہدایت کی کہ کل متعلقہ وزیر کو پابند کریں کہ ان سوالات کے جواب دے۔ قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ ہاؤس بزنس ایڈوائزری میں فیصلہ ہوا تھا کہ مختلف ایشوز پر بحث کی جائے گی، اس لئے ان ایشوز پر بحث کر لی جائے تو متعلقہ وزیر آ کر جواب دیدیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کل کابینہ کے اجلاس کی وجہ سے وقفہ سوالات نہیں ہو گا۔

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام غریب عوام کی فلاح و بہبود کا اچھا پروگرام تھا اس لئے موجودہ حکومت نے اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے رقم بھی بڑھا دی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کر سکیں اس پروگرام میں سیکرٹری کے عہدے پر جس آفیسر کو تعینات کیا گیا اس کا کافی تجربہ ہے اور وہ ویت نام میں بھی فلاح و بہبود کے کام انجام دے چکے ہیں ان کے تجربہ کو مدنظر رکھ کر ان کی تقرری کی گئی ہے۔

قبل ازیں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے حکومت کی توجہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سیکرٹری کے عہدے پر جونیئر افسر کی تقرری کی جانب دلائی۔علاوہ ازیں ڈپٹی چیئرمین سینٹ سینیٹر صابر علی بلوچ نے سینیٹر سعید غنی کی فنانس ڈویژن کے خلاف تحریک استحقاق متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دی۔ انہوں نے گزشتہ روز ایوان بالا کے اجلاس میں فنانس ڈویژن کی طرف سے سوال کا غلط جواب فراہم کرنے پر تحریک استحقاق پیش کی تھی جس پر چیئرمین نے غور کے بعد آج رولنگ دینے کا کہا تھا۔