سپریم کورٹ کا آٹے کی دستیابی اور قیمتوں سے متعلق چاروں صوبوں کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالتی معاون اور صوبائی لاء افسروں پر مشتمل کمیٹی بناکر رپورٹ طلب کرلی ،عوام کے مسائل کے حل میں بے بسی محسوس کی تو اٹھ کر چلا جاوٴں گا ،بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنایا جائے، جب انسان بھوک اور افلاس سے مر جائے گا تو کسی چیز کی ضرورت نہیں رہے گی ، جسٹس جواد ایس خواجہ ،وفاق اور صوبے آٹے کی قیمتوں پر 40 ارب روپے سالانہ سبسڈی دیتے ہیں ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل

پیر 14 اپریل 2014 00:11

سپریم کورٹ کا آٹے کی دستیابی اور قیمتوں سے متعلق چاروں صوبوں کی رپورٹ ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14اپریل۔2014ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے آٹے کی دستیابی اور قیمتوں سے متعلق چاروں صوبوں کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالتی معاون اور صوبائی لاء افسروں پر مشتمل کمیٹی بناکر رپورٹ طلب کرلی جبکہ جسٹس جوادایس خواجہ نے کہا ہے کہ عوام کے مسائل کے حل میں بے بسی محسوس کی تو اٹھ کر چلا جاوٴں گا ،بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنایا جائے، جب انسان بھوک اور افلاس سے مر جائے گا تو کسی چیز کی ضرورت نہیں رہے گی۔

پیر کو جسٹس جواد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی،سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ، چاروں صوبائی لاء افسران ،عدالتی معاون و حکومتی جماعت کے سینیٹر محمد رفیق راجوانہ ایڈووکیٹ پیش ہوئے جبکہ درخواست گزار لیاقت بلوچ کی نمائندگی توفیق آصف نے کی سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے چاروں صوبوں اور وفاق کی جانب سے عدالت کوالگ الگ رپورٹ پیش کی،جس میں بتایاگیا تھا کہ عوام کی فلاح وبہبود کیلئے ملک میں آٹے پر تقریبا چالیس ارب روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے تاہم عدالت نے وفاق اورصوبوں کی رپورٹس کو نامکمل قرار دیتے ہوئے مسترد کردیااورکہا کہ حکومت کی جانب سے آٹے کی قیمتوں کوکنٹرول کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں ، ۔

(جاری ہے)

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عوام کے مسائل حل نہ کرسکیں تو یہاں بیٹھنے کا کیا فائدہ ہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اور صوبے آٹے کی قیمتوں پر 40 ارب روپے سالانہ سبسڈی دیتے ہیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنایا جائے، آج کل کوئی شخص 7 ہزار روپے میں کیسے گزارہ کرسکتا ہے؟، جب انسان بھوک اور افلاس سے مر جائے گا تو کسی چیز کی ضرورت نہیں رہے گی۔

جسٹس جواد نے کہا کہ زرعی ملک میں لوگوں کو بھوک سے مرتا دیکھ کر انہیں تو ندامت ہوتی ہے کہ ان کے پاس گھر بھی ہے اور گاڑی بھی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب حکومت کی جانب سے کچھ نہیں ملتا تو عوام سپریم کورٹ کی طرف نگاہیں لگا لیتے ہیں۔جسٹس جواد نے کہا کہ کسی کو تو اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی سماعت کے دور ان درخواست گزار کے وکیل توفیق آصف ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اگرواقعی عوام کیلئے آٹے پر سبسڈی کا اطلاق کیاجاتاہے تو یہ سلسلہ سہولت بازاروں اور یوٹیلیٹی سٹوروں سے ہٹ کر عام بازاروں اور گلی محلے میں بھی ہونا چاہیے تاکہ اس سے زیاد ہ سے زیادہ عوام مستفید ہوسکیں ۔

انہوں نے نے استدعا کی کہ آٹے کی قیمتو ں کوکنٹرول کرنے کیلئے متعلقہ اضلاع کی بار ایسوسی ایشنز کے ممبران پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی جائیں ،جو مختلف سٹوروں اور دکانوں پر جا کر قیمتوں کا جائزہ لیں اورجہاں فرق نظر آٰئے اس کاسدباب کیاجاسکے تاہم عدالت نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ بار کے ممبران کے پاس پہلے ہی کام کی زیادتی ہوتی ہے اس لیے ان کو یہ کام نہیں سونپا جا سکتا۔

عدالت نے ا یڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ اورتوفیق آصف ایڈووکیٹ کی سربراہی میں چارکمیٹیاں تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیاکہ ان کمیٹیوں میں متعلقہ صوبے کے لاء افسران بھی شامل ہونگے جو تمام صوبے میں آٹے کی دستیابی اور قیمتوں سے متعلق اپنی اپنی رپورٹس آئندہ سماعت تک عدالت کو پیش کریں۔ عدالت نے مزید ہدایت کی کہ کمشنر فوڈ اینڈ سیکورٹی ایک چارٹ تیار کرنے عدالت کوبتائیں کہ ایک چھوٹا سا خاندان مقررہ 7سے9 ہزار روپے ماہانہ اجرت میں کس طر ح گزر بسر کر سکتا ہے جسٹس جواد ایس خواجہ نے عدالتی معاون ایدووکیٹ رفیق راجوانہ کی تجویز پر اس سلسلہ میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اجلاس منعقد کر کے نئی تجاویز بھی پیش کرنے کی ہدایت کر تے ہوئے مزید سماعت 22 اپریل تک ملتوی کر دی ۔

متعلقہ عنوان :