خواہش ہے مخلوط حکومت چلتی رہے،مکمل تعاون کرتے رہیں گے،نواب ثناء اللہ زہری، 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو مکمل اختیارات دے دیئے گئے ہیں،حکومت ناراض بلوچوں سے مذاکرات کرے، حقوق کے حصول کیلئے سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں،گوادر پورٹ کی تعمیر چین کو دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بہت سے ممالک کی نظریں لگی ہوئی ہیں ، کالا باغ ڈیم کے حق میں ہیں،دیگرصوبے مخالفت کررہے ہیں،صحافیوں سے بات چیت

ہفتہ 12 اپریل 2014 20:15

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔12اپریل۔2014ء) مسلم لیگ(ن) بلوچستان کے صدر ،چیف آف جھالاوان و سینئر صوبائی وزیر مواصلات ،تعمیرات ،کان کنی ، معدنی ترقی اور صنعت نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو مکمل اختیارات دے دیئے گئے ہیں جو لوگ ناراض ہیں حکومت کو چاہئے ان سے مذاکرات اوراپنی رٹ قائم کرے کیونکہ اگر رٹ قائم نہیں کریگی تو حکومت کیلئے مسائل پیدا ہونگے گوادر پورٹ کی تعمیر صرف چین کو دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ اس پر بہت سے ممالک کی نظریں لگی ہوئی ہیں ۔

انہوں نے یہ بات ہفتہ کو اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی ۔اس موقع پر صوبائی وزیر خوراک میر اظہار کھوسہ ،(ن) لیگ کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات علاو الدین،نومنتخب کونسلر یونس لہڑی بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

نواب ثناء اللہ زہری نے کہا کہ موجودہ حکومت کو بنے ہوئے تقریباً ایک سال ہونے والا ہے اور ہماری خواہش ہے کہ یہ حکومت چلتی رہے اور ہم حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کررہے ہیں اس وقت بھی ہمارے پاس 39سے زیادہ ارکان اسمبلی کی اکثریت موجود ہے ہم دو گھنٹے کے نوٹس پر حکومت بناسکتے ہیں مگر ہم مری معاہدے کے پابند ہیں وزیراعلیٰ بلوچستان خود کہہ چکے ہیں کہ کچھ مسئلے پیدا ہوگئے تھے جنہیں اب حل کرلیا گیا ہے مخلوط حکومت میں مشکلات ضرور ہوتی ہیں مگر انہیں آہستہ آہستہ حل کیا جارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ 16اپریل کو ہمارے شہید ہونے والے بیٹوں کی برسی کے حوالے سے پروگرام تشکیل دیدیا گیا ہے خضدار اور انجیرہ میں تمام پروگرام ہونگے جبکہ بلوچستان بھر میں مظاہرے کئے جائیں گے اور ریلیاں نکالی جائیں گی اور ہڑتال کے حوالے سے بھی پارٹی شیڈول جاری کیا گیا ہے ہمارے نوجوانوں کو بلاجواز شہید کیا گیا ایف آئی آر میں ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے لیکن تاحال گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور ایف آئی آر میں جو نشاندہی کی گئی ہے اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی ایف آئی آر بدستور برقرار ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم بلوچستان میں امن و امان کی بہتری ،گڈ گورننس کے حوالے سے نہ صرف کوشاں ہیں بلکہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ساتھ ہر ممکن تعاون کر رہے ہیں کچھ مشکلات ضرور درپیش رہی ہیں اور ہمارے ساتھیوں نے اپنے تحفظات اور خدشات کا بھی اظہار کیا لیکن وزیراعلیٰ بلوچستان خود بھی اس کا میڈیا کے سامنے برملا اظہار کرچکے ہیں تو کچھ مسائل تھے انہیں حل کرلیا گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ یہاں جو قوتیں مزاحمت کا راستہ اپنائے ہوئی ہیں انکی جانب سے روایات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھاجارہا بلکہ پامال کیا جارہا ہے بلکہ ماضی میں روایات کو نہ صرف ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا بلکہ نہایت اور بے گناہ لوگوں کو اپنی جنگ میں شامل نہیں کیا جاتا تھاسبی میں ٹرین حملہ اوراسلام آباد بم دھماکے میں معصوم و بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع قابل افسوس اور قابل مذمت ہے بندوق کسی بھی مسئلے کا حل نہیں مسائل کے حل کیلئے انہیں مذاکرات کی میز پر آنا ہوگاتمام معاملات کو افہام و تفہیم سے ہی حل کیا جاسکتا ہے اور ہم اپنے حقوق کے حصول کیلئے سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں گوکہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد ہمیں زیادہ اختیارات دیئے گئے ہیں اور اب ہمیں وفاق کی جانب نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اپنے معاملات اور مسائل کے حل پر زیادہ توجہ د ینی چاہئے ترقی اور خوشحالی کا جو پہیہ جام ہوا ہے اسکا زیادہ دیر رکنا درست نہیں پسماندگی اور محرومی کے خاتمے اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔

گوادر پورٹ کی چین حوالگی سے متعلق بات کرتے ہوئے نواب ثناء اللہ زہری نے کہا کہ بلوچستان کے معروضی حالات کو اگر دیکھا جائے تو اسکے مثبت اور منفی اثرات موجود ہیں چین کی مکمل آمد کے بعد یہاں حالات خراب ہوسکتے ہیں تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ مستقبل کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرتے ہوئے معروضی حالات کو مد نظر رکھا جائیچین کی آمدکے بعد یہاں امریکہ سمیت دیگر ممالک بھی آئیں گے اور لامحالہ حالات کو خراب کرنے میں وہ تمام اپنا حصہ ڈالیں گے اور گوادر اہمیت کا حامل خطہ ہے جس کے بعددوبئی کی معاشی سرگرمیوں پر بھی اثرات مرتب ہونگے اور ایران کی بندرگاہ بھی متاثر ہوگی اوروہ تمام قوتیں نہیں چاہیں گی کہ گوادر میں معاشی سرگرمیاں شروع ہوں اور یہاں چین بیٹھے اور گزشتہ دنوں ایرانی فورسز کے اہلکاراغواء جن سے میں سے چار بازیاب ہوئے ایک تاحال نہیں ملا اوراسکے بعدایران کے رویے میں تبدیلی بھی سامنے آرہی ہے جس سے 65سالہ تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ ہے اورتعلقات کی بہتری کے حوالے سے وزیراعظم میاں نواز شریف خود ایران جارہے ہیں۔

ریکوڈک کے حوالے سے سوال کے جواب میں نواب ثناء اللہ زہری نے کہا کہ ریکوڈک جیسے بڑے منصوبے کو چلانا ہمارے بس کی بات نہیں ہمارے پاس نہ تو اتنے وسائل ہیں اور نہ ہی افرادی قوت اور صلاحیت ہے کہ ہم اتنے بڑے منصوبے کو باآسانی چلاسکیں ریلوے اور پی آئی اے جیسے اداورں کو نہیں چلاسکتے تو ریکوڈک کو کہاں سے چلاسکیں گے ٹیتھیان عالمی عدالت انصاف میں اگر مقدمہ جیت جاتی ہے تو ہمارے لئے مشکلات بڑھیں گی اور ہمیں 400ملین ڈالر اد اکرنا ہونگے جو 40ارب روپے بنتے ہیں اس لئے میں نے چیف سیکرٹری کو کہا ہے کہ اس مسئلے کو جلد از جلد حل کیا جائے تاہم ہم چاہتے ہیں کہ اس منصوبے کو ٹیتھیان چلائے یا کوئی بھی لیکن غیر ملکی ماہرین آکر اس منصوبے پر کام کریں لیکن اس میں بھی ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا کیونکہ سیندک کے ساتھ ہونے والا حشر ہم سب نے دیکھ لیا ہے اس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔

انہوں نے کہا کہ جب صوبے میں گورنر راج نافذ ہوا تو اس وقت صوبے میں ترقیاتی کام رک گئے تھے اوروہ ابھی تک رکے ہیں جس کی وجہ سے مشکلات پیدا ہورہی ہیں پی ایس ڈی پی میں جس طرح کا طریقہ کار رکھا گیا ہے اس میں مسائل کا حل یا لوگوں کو سہولیات کی فراہمی ممکن نہیں بجلی کیلئے صرف 75لاکھ اور گرین بلوچستان منصوبے کیلئے ایک کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جو ناکافی ہیں اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے اور ہم نے تجاویز دی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم کالا باغ ڈیم بنانے حامی ہیں لیکن سند ھ اور صوبہ پختونخوا اسکی مخالف کر رہے ہیں ہم انکا ساتھ دے رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ جب کسی بھی ملک کی قوم حکومت کے بارے میں دلچسپی لینا چھوڑ دے اگر ملک میں مارشل لاء لگتا ہے تو ہ مٹھائیاں بانٹے ہیں اور بہت سی توقعات رکھتے ہیں جب ملک میں جمہوریت آتی ہے تو توقع رکھتے ہیں کہ ایک دو سال میں کام ہوجائیں گے اس لئے عوام کو بھی دلچسپی لینا ہوگی تاکہ جو اس وقت مسئلے ہیں وہ حل ہوسکیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پہلا ملک ہے جہاں 18سے 19گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے لیکن عوام خاموش ہیں اگر یہ لوڈشیڈنگ کسی اور ملک میں ہوتی تو پتہ نہیں کیا ہوجاتا عوام کو چاہئے کہ وہ بھی دلچسپی لے ۔انہوں نے کہا کہ جہاں تک وزراء کے اختیارات کا تعلق ہے وہ ٹھیک ہے البتہ صوبائی وزیر داخلہ اپنے محکمے میں کوئی تبادلے نہیں کرسکتا باقی محکموں میں کرسکتے ہیں اگر صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نہ ہوتا تو بلوچستان کے معاملات کے بارے میں کوئی بھی نہیں بولتا۔

انہوں نے کہا کہ قلات آپریشن کے بارے میں مجموعی طور پر جو تاثر پیش کیا جارہا ہے اس حوالے سے تحقیقات ہورہی ہیں لیکن میری اطلاعات کے مطابق ایک آٹھ سالہ بچہ زد میں آیا ہے باقی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی کو دیکھا جائے تو وفاق کی جانب سے زیادتیاں ہوئی ہیں اور وفاقی محکموں میں بلوچستان کے کوٹے پر عملدرآمد نہیں ہوا اوراسکا اظہار خود صدرمملکت ،وزیراعظم ،وفاقی قیادت کرتی رہی ہے ہمیں امید ہے کہ ہم صورتحال کو بہتر بناسکتے ہیں پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں وفاق کی جانب دیکھنے کی بجائے اپنے پیروں پر خود کھڑا ہونا ہوگا پنجاب،خیبر پختونخو اور سندھ نے وفاق کی جانب دیکھنا ترک کردیا ہے ہم کیوں وفاق کی جانب دیکھیں اگر ہم کرنا چاہئیں تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :