سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے 3 نومبر کے اقدامات کے حوالے سے نظر ثانی کی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ،پی سی او پر حلف نہ لینے سے متعلق رجسٹرار سپریم کورٹ نے تمام ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کو فیکس کے ذریعے آگاہ کردیا تھا،سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے تین نومبر کے اقدام کو غیرآئینی قرار دیا ، عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ،ججز پر ہمیشہ تنقید ہوتی ہے مگر وہ قانون و انصاف کے مطابق ہی فیصلے کرتے ہیں ، جسٹس جوادایس اخواجہ

جمعرات 10 اپریل 2014 19:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10اپریل۔2014ء) سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے 3 نومبر کے اقدامات کے حوالے سے عدالتی فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی سی او پر حلف نہ لینے سے متعلق رجسٹرار سپریم کورٹ نے تمام ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کو فیکس کے ذریعے آگاہ کردیا تھا، سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے تین نومبر کے اقدام کو غیرآئینی قرار دیا ، ججز پر ہمیشہ تنقید ہوتی ہے مگر وہ قانون و انصاف کے مطابق ہی فیصلے کرتے ہیں جمعرات کو چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے 31 جولائی 2009 کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست زائد الوقت قرار دیتے ہوئے مسترد کردی تھی جس کا تفصیلی فیصلہ جمعرات کو جاری کیا گیا تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کی یہ دلیل کافی نہیں کہ وہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے متعصب ہونے کی وجہ سے بروقت نظر ثانی درخواست دائر نہیں کرسکے تھے، عدالت نے سابق فوجی سربراہ کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کرنے کی ہدایت نہیں کی بلکہ پرویز مشرف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی حکومتی یقین دہانی پر مقدمہ نمٹا دیا گیا تھا، اگر عدالت ان کے حوالے سے کوئی تعصب رکھتی تو اس حوالے سے کوئی ہدایت دے سکتی تھی اور جس بینچ نے یہ مقدمہ نمٹایا سابق چیف جسٹس اس کا حصہ ہی نہیں تھے۔

(جاری ہے)

عدالت کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ 3 نومبر کے اقدامات سے متعلق مقدمے میں پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوکر یہ موٴقف اپنا سکتے تھے کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ان کے مقدمے کی سماعت نہ کریں یا پھر 31 جولائی کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کردیتے اور عدالت سے استدعا کرتے کہ افتخار محمد چوہدری مقدمے کی سماعت نہ کریں۔عدالتی فیصلے میں وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے خلاف نظرثانی درخواست کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ پرویز مشرف بیرون ملک مقیم تھے مگر 31 جولائی کے فیصلے سے متعلق وطن واپس آکر نظرثانی کی درخواست دائر کرسکتے تھے،فیصلے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف نے بطور آرمی چیف غیر قانونی اقدام کرتے ہوئے اکسٹھ سے زائد ججز کو معزول کیا، جس پر نظر ثانی کی درخواست ایک ہزار پانچ سو سرسٹھ دن کی تاخیر سے دائر کی گئی۔

عدالتی فیصلے میں جسٹس جواد ایس خواجہ کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے ،42 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا کہ پی سی او پر حلف نہ لینے سے متعلق رجسٹرار سپریم کورٹ نے تمام ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کو فیکس کے ذریعے آگاہ کردیا تھا، سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے تین نومبر کے اقدام کو غیرآئینی قرار دیا۔جسٹس جواد نے بارہ صفحات کا اضافی نوٹ بھی تحریر کیا ہے، اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے خود کو اس بات تک محدود رکھا کہ افتخار چودھری مدعی بھی تھے اور منصف بھی۔

پرویز مشرف کے وکلا نے یہ بھی اعتراض اٹھایا کہ افتخار چودھری کو اس مقدمے میں منصف نہیں ہونا چاہئے تھا، ججز پر ہمیشہ تنقید ہوتی ہے مگر وہ قانون و انصاف کے مطابق ہی فیصلے کرتے ہیں۔پرویز مشرف نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کو معطل کیا، تین نومبر کو بھی پرویز مشرف نے بطور آرمی چیف غیرآئینی اقدام کیا، پرویز مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس سمیت اکسٹھ ججز کو معذول کیا۔ سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے ججز اور انتظامیہ کو مشرف کا غیرقانونی حکم ماننے سے روک دیا تھا۔

متعلقہ عنوان :