تحفظ پاکستان آرڈیننس پاکستان کو عسکریت پسندوں سے تحفظ دینے کیلئے نہیں ،سینیٹر فرحت اللہ بابر،آرڈیننس سیکیورٹی ایجنسیوں کو جسے چاہے اغوا کر کے لاش کہیں بھی پھینک دینے کا لائسنس ہے، بیان

بدھ 9 اپریل 2014 22:03

اسلام آ با د(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔9اپریل۔2014ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ تحفظِ پاکستان آرڈیننس پاکستان کو عسکریت پسندوں سے تحفظ دینے کے لئے نہیں بلکہ یہ سکیورٹی ایجنسیوں کو اس بات کا لائسنس ہے کہ وہ جسے چاہے اغوا کرے اور اس کے بعد اس کی لاش کہیں بھی پھینک دے۔ بدھ کو جاری کئے گئے ایک بیان میں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والوں نے جب یہ محسوس کیا کہ ان سے عدالتوں اور پارلیمنٹ میں زبردستی غائب کئے جانے والوں کے لئے سوالات کئے جا رہے ہیں تو انہوں نے اپنی رکاوٹ کو اس قانون کے تحت دور کرنے کا طریقہ اپنایا ہے لیکن سینیٹ میں اس کی سخت مخالفت کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ آرڈیننس نہ صرف یہ کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ مختلف عالمی معاہدوں کے خلاف اعلانِ جنگ بھی ہے۔

(جاری ہے)

ان معاہدوں میں تشدد کے خلاف کنونشن اور سول اور پولیٹیکل رائٹس کنونشن بھی شامل ہیں۔ پولیس کے سامنے نام نہاد اعتراف کو اس آرڈیننس کے ذریعے عدالتوں میں تسلیم کئے جانے سے پاکستان میں تشدد کا سیلاب آجائے گا۔ اس قانون کے تحت قانون نافذ کرنے والوں کو یہ اختیار مل جائے گا کہ کسی کو بھی گولی مار سکتے ہیں، اغوا کر سکتے ہیں اور بلا روک ٹوک انہیں مار کر کہیں بھی پھینک سکتے ہیں، کسی کے گھر میں بھی بغیر سرچ وارنٹ داخل ہو سکتے ہیں اور کسی کو بھی شک کی بناء پر گولی کا نشانہ بنا سکتے ہیں، ایسے اختیارات ہیں جن سے بلوچستان کراچی اور دیگر جگہوں پر انتشار پھیل جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے ہی سیاسی تشدد کو روکنے کے لئے سخت قوانین موجود ہیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ ان قوانین پر عملدرآمد پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں بجائے اس کے کہ نئے قوانین بنائے جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ خلوص نیت سے ان قوانین پر عمل کرے۔ گزشتہ سال کالعدم تنظیموں کو نئے نام سے سامنے آنے کی اجازت نہ دینے کے قانون تو بنا تھا لیکن اس پر عمل نہیں ہوا تھا اور بہت ساری کالعدم تنظیمیں نئے نام سے سامنے آگئی تھیں جن میں سے فلاحی کاموں کے نام پر کچھ کو خطیر سرکاری امداد سے بھی نوازا گیا۔

فرحت اللہ بابر نے اس توجیح کو مسترد کر دیا کہ ترقی یافتہ جمہوریتوں میں بھی مجرموں اور عسکریت پسندوں کے خلاف اسی قسم کے قانون نافذ کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ جمہوریتوں میں کا اختیارات کا توازن احتساب سے کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے سختی کے ساتھ احتساب اور سوالات کی مزاحمت کرتے ہیں۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال سکیورٹ اسٹیبلشمنٹ نے پارلیمانی کمیٹی سے کہا تھا کہ وہ اطلاعات تک رسائی کے قانون کا دائرہ کار ان کی اجازت کے بغیر نہ بڑھائیں لیکن کمیٹی نے اسے فوراً ہی مسترد کر دیا تھا۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس مرحلے پر عدالتوں سے رجوع کرنے کی بھی مخالف ہے کیونکہ ابھی پارلیمنٹ میں بحث ہونی ہے اور اس قانون میں ترامیم لائی جا سکتی ہیں اور اسے مسترد بھی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے امور کو دوسرے فورم پر لے جانا عقلمندی نہیں۔

متعلقہ عنوان :