پنجاب میں محرموں کے ہاتھوں ریپ کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے ، غیر سرکاری تنظیم کادعویٰ

بدھ 9 اپریل 2014 15:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 9اپریل 2014ء) پاکستان میں خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فاوٴنڈیشن نے کہا ہے کہ رواں سال کے پہلے تین ماہ میں صوبہ پنجاب میں محرم خواتین کے ساتھ ریپ کے، چار گنا زیادہ واقعات سامنے آئے ہیں غیر ملکی میڈیا کے مطابق لاہور میں عورت فاوٴنڈیشن کے اہلکار، عابد علی نے بتایا کہ صوبہ پنجاب میں یکم جنوری سے مارچ 2014 تک، تین خواتین باپ، ایک خاتون بھائی، ایک انکل اور ایک خاتون اپنے سسر کے ہاتھوں ریپ ہوئیں۔

2013 میں انسیسٹ ریپ کے چودہ واقعات سامنے آئے جن میں سے تین پہلے چھ ماہ میں ہوئے تاہم رواں سال کے پہلے تین ماہ میں چھ واقعات سامنے آ چکے ہیں۔عابد علی کے مطابق، عورت فاوٴنڈیشن 90 فیصد اعداد و شمار، میڈیا پر آنے والی خبروں سے جمع کرتی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں گزشتہ تین ماہ میں خواتین پر مختلف نوعیت کے تشدد کے 1400 واقعات سامنے آئے جن میں 1512 خواتین متاثر ہوئیں۔

انہوں نے خواتین خصوصاً نوجوان لڑکیوں کو یرغمال بنائے جانے کو پنجاب میں سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔2013 میں خواتین کو یرغمال بنائے جانے کے 1766 واقعات سامنے آئے جو 2012 کی نسبت اٹھارہ فیصد زیادہ تھے۔حالیہ برسوں میں پاکستان میں خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے، قرآن سے شادی، زبردستی کی شادی اور تیزاب پھینکنے جیسی کارروائیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون سازی ہوئی۔

شادی کی عمر مقرر کرنے کا بل پارلیمان میں ہے۔ اِن قوانین کے باوجودخواتین پر تشدد کے واقعات سالہا سال بڑھ رہے ہیں۔

مباحثے میں سرکاری اور غیر سرکاری ماہرین میں اتفاقِ رائے تھا کہ اِن قوانین کے مثبت اثرات پیدا نہ ہونے کی بنیادی وجوہات، عمل درآمد کے نظام کی کمزوریاں اور سماجی روئیے ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے وکیل محسن کیانی کی رائے تھی کہ پولیس، وکلاء اور عدلیہ تاحال 1979 کے حدود آرڈیننس کے سائے سے باہر نہیں نکل سکے۔

جج محض گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر فیصلے دیتے ہیں جبکہ واقعاتی شواہد یا ڈی این اے ٹیسٹ جیسے جدید طریقوں کو نظرانداز کیاجاتا ہے۔مباحثے میں مہرین مقصود نے بھی زمینی حقائق بیان کیے جو وفاقی وزارتِ داخلہ کے ماتحت، خواتین کے خلاف جرائم کے متعلق ادارے، جینڈر کرائم سیل کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔اْنہوں نے بتایا کہ وہ چھ سال سے ادارے کے ساتھ ہیں۔

عملے کی تعداد چھپن ہونی چاہیے تاہم دو سے زیادہ نہیں ہو سکی اور بعض اوقات وہ تن تنہا ہی ادارہ چلاتی ہیں۔مباحثے میں اسلام آباد پولیس کی خاتون ایس پی نگہت حیدر نے مہرین مقصود سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ عارضی اقدامات کے باعث، تحقیقات میں کمی رہ جاتی ہے۔ جرائم کو ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے محسن کیانی کے مطابق، فوجداری مقدمات میں، شواہد اور ثبوت کی ذمہ داری استغاثہ پر ہوتی ہے تاکہ ملزم کو انصاف ملے۔

چونکہ ریپ کے مقدمات میں استغاثہ خود متاثرہ خاتون ہوتی ہے چنانچہ تفتیشی کوتاہیوں کا خمیازہ بھی اسے بھگتنا پڑتا ہے۔نظام عدل کے اس نکتے کی بنیاد پر مباحثے میں شریک صحافی عدنان رحمت نے زور دیا کہ شعور کی بیداری کے لیے میڈیا کو خواتین کے حقوق کے مجموعی فریم ورک پر توجہ دینا ہو گی۔عورت فاوٴنڈیشن کے عابد علی نے بتایا کہ گزشتہ تین ماہ میں، پنجاب سے، خواتین کے ساتھ ریپ کے دو سو سے زائد واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے۔ حکومتِ پنجاب اور عدلیہ صرف مظفر گڑھ کی ’آ‘ کے معاملے میں حرکت میں آئی اور وہ بھی تب جب ریپ کے بعد پولیس کے رویے سے تنگ آ کر اس نے سرِعام خود کو آگ لگا کر جان دیدی۔

متعلقہ عنوان :