دہشتگردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنیوالے ریاست کے باغیوں سے مذاکرات کرنا شریعت کی خلاف ورزی ہے‘ سنی اتحاد کونسل،اسلام کاروکاری کے نام پر خواتین کے قتل کی اجازت نہیں دیتا ،حکمران شریعت نافذ نہ کر کے اسلام اور آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں،حکام کی آمد پر راستے بند کرنا غیرشرعی اور وی آئی پی کلچر خلاف اسلام ہے،سزائے موت کے قانون کو معطل رکھنا شریعت کی خلاف ورزی ہے،سنی اتحاد کونسل کے چالیس مفتیوں کا اجتماعی شرعی اعلامیہ

اتوار 6 اپریل 2014 19:58

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔6اپریل۔2014ء) چیئرمین سنی اتحاد کونسل پاکستان صاحبزادہ حامد کی اپیل پر سنی اتحاد کونسل کے چالیس مفتیانِ کرام، جیّد علماء، شیوخ الحدیث اور شیوخ القرآن نے مشترکہ اجتماعی شرعی اعلامیہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ محض اختلاف رائے کی بنیاد پر صحافیوں پر حملے اور میڈیا پرسنز کے قتل کے فتوے شریعت کے منافی ہیں۔

اسلامی ریاست میں نفاذِ شریعت کے لیے مسلح جدوجہد شرعی اعتبار سے غلط ہے۔ اسلامی ریاست کے خلاف مسلح بغاوت، خودکش دھماکے، پولیو ورکرز، اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور سکیورٹی فورسز پر حملے غیرشرعی ہیں۔ اسلام سکولوں کو تباہ کرنے، خواتین کو تعلیم سے روکنے، عقیدے کے اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کی جان لینے اور قیدیوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

(جاری ہے)

دہشت گردی کی سینکڑوں کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے اور پچاس ہزار سے زائد بے گناہوں کے قاتلوں سے مذاکرات کرنا شریعت کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت کی امریکہ نواز پالیسیوں کی سزا عام پاکستانیوں کو دینا شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ اسلام کاروکاری کے نام پر خواتین کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ کاروکاری، عورتوں کی قرآن سے شادی اور ونی جیسی رسومات خلاف اسلام ہیں۔

سودی نظام معیشت الله اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کے مترادف ہے۔ آئین کی شق 62اور 63 پر پورا نہ اترنے والے ممبران پارلیمنٹ کی رکنیت ختم کرنا لازمی، شرعی و آئینی تقاضا ہے۔ آئین اسلامی ریاست پاکستان کے حکمرانوں کو نفاذ شریعت کا پابند بناتا ہے اس لیے ہمارے حکمران ملک میں شریعت نافذ نہ کر کے شریعت اور آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اسلام عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے سے منع نہیں کرتا بلکہ اسلام نے ہر عورت اور مرد کے لیے علم حاصل کرنا لازم قرار دیا ہے۔

اسلام ارتکازِ دولت اور ارتکازِ طاقت کو باطل قرار دیتا ہے۔ اسلام ضرورت سے زائد دولت تقسیم کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ جاگیرداری نظام کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ حکمرانوں کی آمد پر راستے بند کرنا غیرشرعی اور وی آئی پی کلچر خلاف اسلام ہے۔ اسلام کے مطابق عوام اور حکام برابر ہیں۔ اسلام طبقاتی نظام کا مخالف ہے۔ آئین شریعت کے تابع ہے۔

آئین کو غیراسلامی اور ریاست کے اندرونی و انتظامی ڈھانچے کو کفریہ قرار نہیں دیا جا سکتا البتہ شریعت سے متصادم قوانین کا خاتمہ حکومت کے لیے لازم ہے۔ سزائے موت کے قانون کو معطل رکھنا شریعت کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت کے لیے جزا و سزا کے نظام کو موٴثر اور مستحکم بنانا فرض ہے۔ ذخیرہ اندوزی، رشوت، سفارش، ملاوٹ، اقرباء پروری، میرٹ کی خلاف ورزی، کرپشن اور ناجائز منافع خوری بدترین گناہ ہیں۔

حکمرانوں کے لیے ان سماجی برائیوں کا خاتمہ لازمی ہے۔ اعلامیہ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مخلوط نظام تعلیم ختم کر کے خواتین کے لیے الگ یونیورسٹیاں قائم کی جائیں۔ پردہ کے شرعی قوانین نافذ کیے جائیں اور عریانی و فحاشی کے سدباب کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت اور دینی اقدار کو فروغ دیا جائے۔ عدالتی نظام کی خامیاں دور کی جائیں۔

سادگی اور کفایت شعاری کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔ حکام اپنے اثاثے پاکستان منتقل کریں۔ معاف کروائے گئے قرضے وصول کیے جائیں۔ غیرآباد اور بنجر سرکاری زمینیں بے زمین کاشتکاروں اور بیروزگار نوجوانوں میں تقسیم کی جائیں۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے بے رحم اور بے لاگ احتساب کا موٴثر نظام بنایا جائے۔ خواتین پر جنسی حملے روکنے کے لیے سخت ترین قوانین اور خصوصی عدالتیں بنائی جائیں ۔

نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو اسلامی و نظریاتی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ امریکہ نواز پالیسیاں ختم کی جائیں۔ پاکستان میں غیرملکی ایجنسیوں کے نیٹ ورکس کا صفایا کیا جائے اور پاکستان میں غیرملکی مداخلت کے راستے بند کیے جائیں۔ پاکستانی پرچم پر الله اکبر کا اضافہ کیا جائے۔ جن مفتیوں اور علماء نے شرعی اعلامیہ جاری کیا ہے ان میں شیخ الحدیث علامہ محمد شریف رضوی، مفتی محمد اکبر رضوی، مفتی محمد رمضان جامی، مفتی محمد سعید رضوی، علامہ حامد سرفراز، علامہ شرافت علی قادری، مفتی محمد یونس رضوی، علامہ فیصل عزیزی، علامہ محمد اشرف گورمانی، مولانا وزیرالقادری، مفتی محمد حسین صدیقی، علامہ حمید الدین رضوی، علامہ نعیم الدین رضوی، علامہ صاحبزادہ مطلوب رضا، علامہ صاحبزادہ عمار سعید سلیمانی، مفتی عبدالحق دریائی، مفتی عبدالعزیز، مفتی محمد شعیب منیر، علامہ محمد آصف رضا قادری، مفتی محمد حبیب رضا قادری، مفتی محمد فاروق القادری، مفتی محمد اظہر سعید، مفتی لیاقت علی رضوی، مفتی محمد عرفان، علامہ ریاض الدین پیرزادہ، علامہ باغ علی رضوی، مفتی فیاض الحسن صابری، مفتی غلام مرتضیٰ مہروی، مفتی شہزاد قادری، مفتی غلام نبی فخری، مفتی غلام محمد چشتی، مولانا محمد اکبر نقشبندی، مولانا غلام سرور حیدری، شیخ الحدیث علامہ فضل رسول، علامہ سلطان چشتی، مفتی امیر عبدالله خان، شیخ الحدیث علامہ قمر سیالوی، مفتی منور حسین رضوی، مفتی محمد بخش رضوی، شامل ہیں۔

متعلقہ عنوان :