سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ کا اجلاس، وزیر مملکت برائے داخلہ اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ کی گزشتہ دو اجلاسوں میں شرکت نہ کرنے پر معذرت مشروط طور پر قبول، وزارت داخلہ محاذ آرائی چاہتی ہے تو پھرکمیٹی اپنا لائحہ عمل تیار کریگی ،وزیر داخلہ ایک بار بھی کمیٹی میں نہیں آئے سیکرٹری داخلہ کی شکل تک نہیں پہچان سکتا ، چیئرمین کمیٹی طلحہ محمود ،حکومت سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو عزت نہیں دے گی تو کل اپوزیشن میں جا کر کیسے حکومت پر چیک رکھ سکے گی،حکومت سے تعاون کرنا چاہتے ہیں مگر وزارت داخلہ کی ڈکٹیشن کے پابند نہیں نہ ہی وزارت داخلہ کمیٹی کے اختیار ات میں مداخلت کرے،وزارت داخلہ سفارشات پر عملدرآمد بنائے، وزیر مملکت برائے داخلہ نے چیئرمین کو وزارت کے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروا دی ، چیئرمین کمیٹی نے بجلی چوری روکنے کے لئے ترمیمی بل پر غور کیلئے سینیٹر سردار خان کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دیدی ، کمیٹی نے وزارت داخلہ سے انسداد دہشتگردی بل 2014 ء پر سابق قانون اور نئی ترامیم کا تقابلی جائزہ رپورٹ طلب کرلی

منگل 1 اپریل 2014 19:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔1اپریل۔2014ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ نے وزیر مملکت برائے داخلہ اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ کی گذشتہ دو اجلاسوں میں شرکت نہ کرنے پر معذرت مشروط طور پر قبول کرلی ، چیئرمین کمیٹی طلحہ محمود نے قراردیا کہ اگر وزارت داخلہ محاذ آرائی چاہتی ہے تو پھرکمیٹی اپنا لائحہ عمل تیار کریگی ،وزیر داخلہ ایک بار بھی کمیٹی میں نہیں آئے سیکرٹری داخلہ کی شکل تک نہیں پہچان سکتا ، حکومت سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو عزت نہیں دے گی تو کل اپوزیشن میں جا کر کیسے حکومت پر چیک رکھ سکے گی۔

حکومت سے تعاون کرنا چاہتے ہیں مگر وزارت داخلہ کی ڈکٹیشن کے پابند نہیں اور نہ ہی وزارت داخلہ کمیٹی کے اختیار ات میں مداخلت کرے۔وزارت داخلہ سفارشات پر عملدرآمد بنائے۔

(جاری ہے)

وزیر مملکت برائے داخلہ نے چیئرمین کو وزارت کے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروا دی ۔ چیئرمین کمیٹی نے بجلی چوری روکنے کے لئے ترمیمی بل پر غور کیلئے سینیٹر سردار خان کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دیدی جبکہ وزارت داخلہ سے انسداد دہشتگردی بل 2014 ء پر سابق قانون اور نئے ترامیم کا تقابلی جائزہ رپورٹ طلب کرلی ۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس منگل کو چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت منعقد ہوا ۔ اجلاس میں وزارت داخلہ کی طرف سے چیئرمین کمیٹی کولکھے گئے خط ، اور بجلی چوری کی روک تھام کیلئے کریمنل لا ترمیمی بل 2014ء اور انسداد ہشتگردی ترمیمی بل 2014ء پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں وزیر مملکت کی عدم موجودگی پر اراکین کمیٹی نے ناراضگی کیا ۔

اجلاس کے آغاز پر رکن کمیٹی طاہر مشہدی نے چیئرمین کی توجہ اجلاس میں وزیر داخلہ کی عدم موجودگی کی طرف مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ قائمہ کمیٹی داخلہ نے حکومت کو خوش کرنے کیلئے اجلاس بلایا مگر حکومت خود غیر حاضر ہے اپنے ہی حکومتی بل منظور کروانے کیلئے وزیر داخلہ اجلاس میں شریک نہیں ۔رولز کے مطابق متعلقہ وزیر اور سیکرٹری یا ایڈیشنل سیکرٹری کو اجلا س میں شریک ہونا ضروری ہوتا ہے ۔

طاہر مشہدی نے کہا کہ کیونکہ حکومت بلز سکورٹنی میں دلچسپی نہیں لے رہی اس لئے ان بلز کو مسترد کر کے رپورٹ ایوان میں پیش کر دی جائے۔ جس پر ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ وزیر مملکت برائے داخلہ پارلیمنٹ میں موجود ہیں اور وہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کیلئے آرہے ہیں۔ وزیر مملکت برائے داخلہ کی اجلاس میں آمد پر چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ وزیر داخلہ طاقتور اور حکومت میں ہیں اس سے پہلے اپوزیشن میں بھی رہے ہیں مجھے نہیں پتہ حکومت کب تک چلتی ہے تاہم دعا ہے کہ پانچ سال پورے کرے ۔

اگر وزراء پارلیمنٹ کو عزت نہیں دینگے اور ایسی روایات اور تاریخ رقم کرینگے تو کل کو یہی صورتحال حکمرانوں کو بھی پیش آئیگی ۔ مسلم لیگ ن حکومت نے سدا اقتدار میں نہیں رہنا کل اپوزیشن میں ہونگے تو پارلیمنٹ کیسے وزارتوں کی مانیٹرنگ کا فریضہ انجام دیگی۔ حکمران اپنے روئیے سے پارلیمنٹ کو کمزور کر رہے ہیں۔ وزارت داخلہ نے جان بوجھ کر غلط اعدادو شمار پر مبنی خط سینیٹ کو لکھا ۔

ایڈیشنل سیکرٹری کون ہوتا ہے ڈکٹیشن دینے والا ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ خود ایک بار بھی اجلاس میں نہیں آئے ، سیکرٹری داخلہ کی شکل تک نہیں پہنچانتا کہ کون ہے ۔ اگر وزارت داخلہ نے محاذآرائی جاری رکھی تو پھر کمیٹی اپنا لائحہ عمل بنائے گی اور سفارشات کی منظوری دیگی۔ قائمہ کمیٹی کے پاس وزیر کو معطل کروانے تک کا اختیار ہے ۔ حکومت سے تعاون کرنا چاہتے ہیں مگر وزارت داخلہ کی ڈکٹیشن کے پابند نہیں اور نہ ہی وزارت داخلہ کمیٹی کے اختیار ات میں مداخلت کرے۔

سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ سیف سٹی منصوبہ بارے گذشتہ اجلاس میں جواب دینے والا کوئی نہیں تھا ۔ چیئرمین طلحہ محمود نے کہا کہ سیف سٹی منصوبہ میں 13ارب کا فراڈ ہوا۔ 1500کیمرے لگائے جانے تھے مگر ابھی تک نہیں لگ سکے ۔ طاہر مشہدی نے کہا کہ ایک 72ارب کے منصوبے پر 104ملین ڈالر خرچ کر دئیے گئے اور 68ملین ڈالر ہڑپ کئے گئے۔ منصوبہ میں پیپرا رولز کی خلاف ورزری کی گئی ، ٹھیکہ کی نیلامی بھی قواعد کے خلاف ہوئی ۔

وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے کہاکہ حکومت پارلیمانی کمیٹیوں کو مئوثر بنانا اور مدد دینا چاہتی ہے ۔ سیکرٹری داخلہ اس لئے اجلاس میں نہیں آئے کہ انہیں وزیر اعظم نے بلا لیا تھا ۔ مجھے تاخیر سے اجلاس کی اطلاع ملی مگر حاضر ہو گیا ۔ وزارت داخلہ امن عامہ کی موجودہ صورت حال اور طالبان مذاکرات کی وجہ سے دباؤ میں ہے، وزارت داخلہ میں غیر معمولی حالات ہیں، اس لئے بعض اوقات کمیٹی ایجنڈا پر تیاری کا موقع نہیں مل پاتا ۔

کمیٹی سے مل جل کر مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ چیئرمین طلحہ محمود نے کہا کہ مانتا ہوں وزیر داخلہ کی ساکھ اچھی ہے مگر انہیں یہ زیب نہین دیتا کہ وہ پارلیمنٹ سے ایسا سلوک کریں اور وزارت داخلہ کے افسروں کو کمیٹی اجلاسوں میں آنے سے روکیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری کو ذاتی طور پر جانتا ہوں وہ ایسا خط نہیں لکھ سکتے جیسا کمیٹی کو بھجوایا گیا ، ایڈیشنل سیکرٹری کو قربانی کا بکر ا بنایا جا رہا ہے ۔

وزیر مملکت برائے داخلہ نے چیئرمین کمیٹی کو یقین دلایا کہ وہ وزارت داخلہ کے کمیٹی کے حوالے سے معاملات کو خود دیکھیں گے اور امید ہے کمیٹی کو آئندہ شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ ایڈیشنل سیکرٹری نے بھی چیئرمین کمیٹی سے معذرت کی جس پر چیئرمین کمیٹی نے وزارت داخلہ حکام کی معذرت کو آئندہ طرز عمل سے مشروط طور پر تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ وزارت نے اگر محاذ آرائی جاری رکھی تو کمیٹی پر اپنا لائحہ عمل بنائے گی۔

اجلاس میں ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ اور وزارت قانون کے حکام نے کمیٹی میں پیش کریمنل لاء ترمیمی بل 2014ء پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وزارت پانی وبجلی نے یہ بل بھجوایا تھا۔بجلی چوری کے حوالے سے پرانے قوانین کے تحت صرف میٹر سے بجلی چوری کیلئے تھے مگر اس بل میں ٹرانشمین لائنز اور میں لائنز سے بھی بجلی چوری کے جرائم کا احاطہ کیا گیا ہے۔

واپڈا کے اعدادو شمار کے مطابق سال 2012-13ء میں واپڈا نے 2300بجلی چوری کے کیسز رجسٹر کروائے جن میں سے صرف تین کیسوں میں سزا ہو سکی ۔ انہوں نے بتایا کہ سالانہ پچاس ارب یونٹس بجلی چوری ہوتی ہے جس کی مالیت 90ارب روپے ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نئے قانون میں سزا کو چوری شدہ بجلی کی قیمت کے برابر جرمانے اور قید تک بڑھایا گیا ہے۔ سینیٹر سردار علی خان، سینیٹرطاہر مشہدی ، سینیٹر یوسف بلوچ نے سزاؤں میں اضافہ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کرپشن کا نیا باب کھل جائیگا۔

ایس ڈی او زیادہ پاور آجائینگی ۔ خیبر پختونخواہ میں پشاور کے نواحی علاقوں میں کئی کئی گاؤں بجلی کا بل ادا نہیں کر رہے ۔ اس قانون سے کیا وہاں بجلی چوری رک جائیگی۔ سزا کے بجائے ریکوری کے لئے پری پیڈ جیسے آپشنز کو بروئے کار لایا جائے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے رکن کمیٹی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ آپریشنل نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔

تاہم وزارت پانی وبجلی نے کافی اقدامات کئے ہیں جن علاقوں میں بجلی چوری زیادہ ہے وہاں لوڈ شیڈنگ زیادہ کی جارہی ہے تاکہ بجلی چوری کم ہو اس سے منافع بھی بڑا ہے جبکہ اہم عہدوں پر میرٹ پر تقرریوں اور وزارت پانی وبجلی کے ماتحت اداروں میں کرپشن کی روک تھام سے معاملات میں بہتری آئی ہے۔ سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ واپڈا اہلکار خود بجلی چوری کرواتے ہیں عوام کو کنڈا لگانے پر راغب کرتے ہیں ۔

نیا قانون بنانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سینیٹر محمد یوسف نے کہا کہ بلوچستان میں ایک ایکٹر اراضی کی قیمت 40ہزار روپے ہے اگر وہاں کسی کو بجلی چوری میں پکڑا جائے تو جرمانے اور قید میں پورے خاندان کا سب کچھ بک جائے گا۔ قانون کی بالا دستی ہونی چاہئیے مگر قانون عوام کے لئے نہیں واپڈا اہلکاروں کیلئے بننا چاہیئے۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ اراکین کو مسودہائے بل کے مطالعہ اور غور کے لئے دو ہفتے دئیے جانے چاہیئں تاکہ وہ بہتر سفارشات تیار کر سکیں۔

ایف آئی اے کو بجلی و گیس چوری روکنے کیلئے کام دیا جا رہاہے مگر ایف آئی اے کے پاس اتنا عملہ ہی نہیں کہ وہ مانسہرہ کے ان علاقوں میں کارروائی کرے جہاں سٹرک تک نہیں جاتی اور دو دون دن کی پیدل مسافت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی چوری 36سے 38فیصد ہے جتنی مرضی بجلی پیدا کر لیں بجلی چوری رہی تو لوڈشیڈنگ کامسئلہ حل نہیں ہو سکتا ۔ حکومت قانون سازی اور سزا کے ساتھ ساتھ جرم کو ڈیل کرنے کا بھی لائحہ عمل بنائے۔

انہوں نے تجویز دی کہ اس بل پر غور کیلئے سب کمیٹی بنائی جائے جو اس بل کی مکمل چھان بین اور بہتر سفارشات مرتب کرے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے اعتراف کیا کہ واپڈا کا عملہ بجلی چوری میں خود ملوث ہے ۔ تاہم انہوں نے قرار دیا کہ مجوزہ بل میں جرائم کے بارے میں ابہام دور کیا گیا ہے اور سزاؤں کی افادیت اپنی جگہ موجود ہے ایک کو بھی مثال بنا دیا تو بجلی چوری کے رجحان میں نمایاں کمی آئیگی۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی سینٹر طلحہ محمود نے بل پر غور کیلئے سینیٹر سردار علی خان کی سربراہی میں سینیٹر طاہر مشہدی اور سینیٹر نجمہ حمید پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دیدی اور جلد از جلد اجلاس منعقد کر کے کمیٹی میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دیدی ۔ قومی اسمبلی سے منظو رہونے والے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2014ء پر کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے تبایا کہ قومی اسمبلی سے منظور کئے گئے بل میں بھتہ ، کو بھی دہشتگردی کے زمرے میں لایا گیا ہے جبکہ دہشتگردی واقعات کی تحقیقات کے لئے مشترکہ ٹیموں کی تشکیل، ویڈیو شہادت ،دہشتگردی کیسوں کی سماعت کرنے والے ججوں کی شناخت خفیہ رکھنے اور مقدمات کی دوسرے علاقوں میں منتقلی کو قانونی حثیت دی گئی ہے جبکہ آرمڈ اور سول اداروں کے اہلکاروں کو پیشگی فائر کا اختیار دیا گیا ہے تاہم انہیں عدالت میں پیشگی فائر کا اختیار کا استعمال ثابت کرنا ہوگا۔

اراکین کمیٹی نے کہا کہ پیشگی فائر کا اختیار ایکسٹرا جوڈیشل قتل کے واقعات میں اضافہ ہوگا اور جو اس کے خلاف عدالت جائیگا وہ بھی ایکسٹر جوڈیشل کلنگ کا شکار بن سکتا ہے۔ جبکہ نوے دن تک حراست میں اجازت کا اختیار مسنگ پرسن کی تعداد میں اضافہ کا باعث ہوگا۔ وزیر مملکت نے اس قانون سے مسنگ پرسن ہونے کا احتمال ہی ختم ہو جائیگا۔ سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ حکومت دہشتگردوں سے لاڈ پیار کر رہی ہے ان سے مذاکرات ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان کے بے بس عوام کے خلاف قانون بنائے جا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ان قوانین کے اپوزیشن کیخلاف استعمال ہونے کا احتمال ہے۔

کسی بھی حراست میں لئے جانے والے شخص کو قانون کے مطابق چوبیس گھنٹے میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے پیشی فائر یا دہشتگردی واقعہ کی تحقیقات کیلئے ڈپٹی کمشنر ، کرنل یا سیشن جج سطح کے افسران کی ٹیم ہونی چاہیے جبکہ پیشگی فائر کرنے کے فیصلہ کا موقع پر موجود ایس یا میجر کو اختیار ہونا چاہیئے#۔ وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے کہا کہ حکومت طالبان سے مذاکرات کر رہی ہے ا س کے لئے تمام سیاسی جماعتوں نے اختیار دیا تھا۔

مسلم لیگ ن اور حکومت کا سیاسی مخالفوں کو نشانہ بنانے کا مزاج نہیں۔ اس قانون سے کوئی ایسے ہی کسی کو گولی مارنے کا مجاز نہیں ہوگا جو اہلکار اختیار استعمال کرے گا اس کو عدالت میں ثابت بھی کرنا پڑیگا۔ سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ پاکستان کی آرمڈ فورسز میں ڈسپلن ہے مگر سول فورسز میں نہیں اس لئے قانون کے غلط استعمال کا احتمال ہے۔ وزارت قانون کے افسر نے بتایا کہ اس قانون میں صرف 1860ء کے قانون کو بحال کیا جا رہاہے جو 1997ء کے انسداد دہشتگردی قانون میں تبدیل کیا گیا تھا کہ صرف سیکیورٹی اہلکار پر گولی چلانے کے بعد فائر کی اجازت ہوگی ۔

جبکہ 1860کے قانون میں صرف گولی چلانے پر سیکیورٹی اہلکاروں کو فائر کی اجازت تھی جس کو بحال کیا گیا ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ نے کہا کہ 1997ء کا قانون مضحکہ خیز تھا کہ سیکیورٹی اہلکار کو جب کوئی نشانہ بنا لے تو پھر وہ جوابی فائر کر نے کا اختیار رکھتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کا غلط استعمال نہیں ہونے دیا جائیگا۔ چیئرمین کمیٹی نے وزارت داخلہ سے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2014ء میں قوانین میں لائی گئی تبدیلیوں کی تقابلی رپورٹ طلب کرلی۔