بدامنی اور شورش کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان بلوچستان کو ہوا ہے ،ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ، مزید خون خرابے سے بچنے کیلئے مذاکرات شروع کئے جائیں، لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کیلئے کوششیں کررہے ہیں،بعض علاقوں میں حالات قابومیں نہیں آسکے،وزیراعلیٰ بلوچستان کانجی ٹی وی کو انٹرویو

پیر 31 مارچ 2014 21:00

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔31مارچ۔2014ء) وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ صوبے میں گزشتہ ایک دہائی سے جاری بدامنی اور شورش کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان بلوچستان اور بلوچ کو ہوا ہے ، صوبے کو مزید خون خرابے سے بچانے کے لئے مذاکرات شروع ہونے چاہیئے، ملک کی قومی اور عسکری قیادت بھی بلوچ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کی خواہش رکھتی ہے ۔

ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہاکہ ہماری جماعت نیشنل پارٹی کو انتخابات میں عوام نے جس منشور کی بنیاد پر ووٹ دیا تھا ہم اس پر عملدرآمد کررہے ہیں، منشور کے تحت سیاسی اور معاشی مسائل پر توجہ دے رہے ہیں، سیاسی مسائل کے حل کے لئے اعتماد کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم لاپتہ افراد، مسخ شدہ لاشوں اور نقل مکانی کرنے والے افراد کی بحالی کا مسئلہ حل کریں، ہم نے مسخ شدہ لاشوں اور نقل مکانی کرنے والے افراد کی بحالی کے مسئلے پر کافی حد تک پیشرفت کرلی ہے جبکہ لاپتہ افراد کے مسئلہ اب تک حل نہیں ہوسکا ہے ۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کے لئے کوششیں کررہے ہیں اور اس سلسلے میں وفاق کی بھی حمایت حاصل ہے ۔عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ پارٹی کے منشور کا دوسرا حصے پر ہم درست سمت میں کام کررہے ہیں، ترقی ،صحت ، تعلیم، فشریز اور دوسرے محکموں میں ہم نے کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں ، ہم بلوچستان کو ترقی اور امن میں دوسرے صوبوں کے برابر لانا چاہتے ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ امن وامان کی صورتحال میں پہلے سے بہتری آئی ہے کوئٹہ میں مسلسل تقریبات کررہے ہیں تاکہ عوام کو تاثر دیا جاسکے کہ حالات بہتری کی سمت جارہے ہیں تاہم وزیراعلیٰ نے اعتراف کیا کہ کیچ، گوادر اور پنجگور سمیت بعض علاقوں میں حالات اب تک قابو میں نہیں آسکے ہیں لیکن اگر ہم نے وفاقی اور صوبائی سالانہ ترقیاتی بجٹ پی ایس ڈی پی پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب رہے تو صوبے کے عوام خود تبدیلی محسوس کریں گے۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ اتحادی حکومت کے اپنے مسائل ہوتے ہیں ، کوآرڈینیشن کی کمی کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوئی تھیں مسلم لیگ نواز اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ساتھ مل بیٹھ کر غلط فہمیوں کو دور کردیا ہے ، اب ہم نے میکنزم طے کردیا ہے جو بھی مسائل ہوں گے وہ کابینہ میں بیٹھ کر حل کئے جائیں گے۔ عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم اب تک ناراض بلوچ قیادت کو مذاکرات میں انگیج کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں لیکن ہم اس سلسلے میں ہوم ورک کررہے ہیں اور راہ ہموار کررہے ہیں، مسخ شدہ لاشیں اور دوسرے مسائل کے حل سے ہمیں اعتماد کا ماحول بنانے میں مدد ملے گی ۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اداروں کو دوبارہ بنانے اور فعال کرنے کے لئے کام کررہے ہیں، کوئٹہ، مستونگ، خضدار اور قلات میں ہم حالات کی بہتری کی جانب جارہے ہیں ، موجودہ حالات میں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا کیونکہ جب تک طالبان اور بلوچ مزاحمت کار مذاکرات کا حصہ نہیں بنتے ، یہ چیزیں کنٹرول میں نہیں آسکتیں، مجموعی طور پر تضادات ہمیں متاثر کررہے ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بعض گروہ آزادی چاہتی ہیں لیکن میں انہیں آزادی نہیں دے سکتا، مذاکرات پاکستان کے آئین کے اندر ہونے چاہئیں اور میں دلائل کی بنیاد پر بلوچ سوال کو پاکستان کے اندر جمہوری انداز میں حل کرنے کی ضرورت پر زور دوں گااب مزاحمت کار کس حد تک آئیں گے یہ میں نہیں جانتالیکن مذاکرات کوئی نا ممکن عمل نہیں ، ماضی میں بھی جنگیں ہوئی ہیں اور مذاکرات بھی ہوئے ہیں لیکن اس وقت اعتماد کا ماحول موجود نہیں۔

1977ء سے2002ء تک بلوچ رہنماء جمہوری انداز میں سیاست کرتے رہے ہیں لیکن حالات اس کے بعد خراب ہوئے، اس وقت بلوچستان میں ہمسایہ ممالک کے مفادات بھی ہیں اور مداخلت بھی موجود ہے ۔ ہمیں وہ کرنا چاہے جو بلوچ قومی سوال ، بلوچستان اور بلوچ قوم کے مفاد میں ہوکیونکہ گزشتہ بارہ سال میں بلوچستان اور بلوچ کو بے تحاشا نقصان ہوا ہے ، پچھلی جنگوں سے اس کا موازانہ کیا جائے تو بلوچ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہے ۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ اکیسویں صدی جمہوری جدوجہد کی صدی ہے ، قومی تشخص ہو یا جغرافیائی، معاشی اور ثقافتی حقوق کا حصول ہو جمہوری اندا زمیں ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں، اٹھارہویں ترمیم بھی جمہوری جدوجہد کا ثمر ہے جس کے ذریعے عدم مرکزیت ہوئی ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ، موجودہ دور میں بلوچ قومی سوال کو عسکریت پسندی کے مقابلے میں جمہوری انداز میں زیادہ بہت طریقے سے اٹھایا جاسکتا ہے ، بلوچستان کو مزید خون خرابے سے بچانے کے لئے ہمیں مذاکرات شروع کرنے چاہئیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ملک میں طالبان سے مذاکرات ہو یا بلوچ مزاحمت کاروں سے ، ملٹری اسٹیبلشمنٹ یا پنڈی کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتے، اسلام آباد میں تمام قومی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور عسکری قیادت کی موجودگی میں مجھے بلوچ مزاحمت کاروں کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دیا گیا تھا ، ملک کی قومی اور عسکری قیادت یہ خواہش رکھتی ہے کہ بلوچ مزاحمت کاروں کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا عمل شروع ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم متاثرہ علاقوں میں ترقیاتی کام نہ کرے، تربت، پنجگور اور گوادر میں کالجز، یونیورسٹیز بنارہے ہیں ، صحت کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں جبکہ ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام کیا جارہا ہے ، ہمارے لئے لاپتہ افراد کا مسئلہ اہم ہے اور اتنا ہی اہم مسئلہ ہمارے لئے پچیس لاکھ بچوں کا سکول سے باہر ہونا ہے ، ہمارے صوبے کے بتیس میں سے اکتیس اضلاع کے عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ہم انہیں اکسیویں صدی کے تقاضوں کے ہم آہنگ سہولیات فراہم کرنا چاہتے ہیں ، شورش کی وجوہات میں تعلیم اور غربت کا ہونا بھی ہے ، ان چیزوں کا ہم ختم کریں گے تو یقینا ہمارے بہت سے دیگر مسائل بھی حل ہوں گے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی اسٹرٹیجک اہمیت گوادر اور ساحل سمندر کی وجہ سے ہے ، گوادر کی ترقی کی آڑ میں کوئی کالونائزیشن کو قبول نہیں کیا جائے گا ، ہم نہیں چاہتے کہ گوادر میں بلوچ عوام اقلیت میں تبدیل ہو اور انہیں صرف چوکیداری کی نوکری ملے ، ایسا کوئی بھی اقدام اٹھایا گیا تو میں مزاحمت کرنے والا پہلا شخص ہوں گا۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ میں حقیقت پسند آدمی ہوں اور یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ تمام ادارے میرے کنٹرول میں ہیں، جو وفاقی ادارے ہیں وہ وفاق کے ماتحت ہی ہیں، بعض معاملات میں ہم ان کو بلاتے ہیں اور بعض دفعہ میں ان کے پاس جاتا ہوں، بہت سی چیزوں پر کوآرڈینیشن موجود ہے بہت سی چیزیں وہ خود اپنے طریقے سے کرتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ کرپشن میں کمی آئی ہے لیکن مکمل خاتمے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، ماضی میں بے تحا شا کرپشن کی گئی ، صوبے میں تین سو کرپشن کے کیسز کی تحقیقات کررہے ہیں اس سلسلے میں وزیراعلیٰ انسپیکشن ٹیم اور انٹی کرپشن کام کررہی ہیں نیب کے کیسز اس کے علاوہ ہیں، اگر ہم ان کیسز میں جزو سزا دیں گے تو لوگوں کو ایک پیغام جائے گا اور یقینا کرپشن کی سطح کم ہوگی ۔