بلوچستان اسمبلی کااجلاس،تین مختلف قراردادیں متفقہ طورپرمنظور، عوام کی بھاری اکثریت اعلیٰ تعلیم سے محروم ہے، نصیر آباد بلوچستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے،گزشتہ دور حکومت میں مختلف طریقوں سے عوامی امانت فنڈز کو بے دردی سے لوٹا گیا،قلعہ عبداللہ میں چرس کے کارخانوں کو اکھاڑ پھینکنے کے عمل کو یقینی بنایا جائے ،حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں،اب جمہوریت کادورہے ،کوئی کرپٹ سزا سے نہیں بچ سکتا،ارکان اسمبلی کی بحث

ہفتہ 29 مارچ 2014 21:30

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔29مارچ۔2014ء) بلوچستان اسمبلی کے ہفتے کے روز اجلاس میں مختلف چار قراردادیں ایوان میں پیش کی گئی جن میں 4 قرار دادوں میں سے ایوان نے 3 قرار دادیں منظور کرلی جبکہ ایک قرار داد کو وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی یقین دہانی پر اسپیکر پینل کی رکن اور جمعیت علماء اسلام کی رکن صوبائی اسمبلی محترمہ حسن بانو رخشانی نے نمٹا دی۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق ہفتہ کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس چیئرمین آف پینل کی رکن صوبائی اسمبلی حسن بانو رخشانی کی صدارت میں تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا اجلاس میں صوبائی وزیر خوراک میر اظہار خان کھوسہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے مشیر زکواة وعشر میر عبدالماجد ابڑو  مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی نوابزادہ طارق مگسی  میر عاصم کرد گیلو  راحت بی بی جمالی کی مشترکہ قرار داد نمبر29ایوان میں پیش کرتے ہوئے رکن اسمبلی حاجی محمد خان لہڑی نے کہا ہے کہ عصر حاضر میں کسی بھی معاشرے کی معراج بلواسطہ اعلیٰ تعلیم سے وابستہ ہے دوسری جانب ہماری صوبائی حکومت بھی تعلیمی افادیت سے مخلص ہونے کے پیش نظر تعلیم ترقی کو اولین ترجیح دے رہی ہے اور صوبے میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے ایک وسیع و عریض صوبے کے پھیلے ہوئے دور دراز علاقوں میں واقع ہونے کی بناء پر صوبے کے عوام کی بھاری اکثریت اعلیٰ تعلیم سے محروم ہے جس کی مثال نصیر آباد ڈویژن ہے ڈیرہ مراد جمالی  جھل مگسی  اوستہ محمد  ڈیرہ اللہ یار  گنداواہ  جعفر آباد  بولان اور ضلع صحبت پور پر مشتمل علاقے دیگر ڈویژنوں کی نسبت خوشحال ڈویژن ہے مگر بد قسمتی سے وہاں کے طلباء اعلیٰ تعلیم کے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں لہٰذا تعلیم کے عصری تقاضوں کی روشنی میں یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ نصیر آباد ڈویژن میں فوری طور پر یونیورسٹی کیمپس کا قیام عمل میں لایا جائے قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے محمد خان لہڑی نے کہا کہ نصیر آباد ڈویژن میں اعلیٰ تعلیم کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے غریب طلباء حصول علم سے محروم ہیں جس پر چیئرمین آف پینل کی رکن حسن بانو نے کہاکہ تعلیم کیلئے قرار داد بھی وفاق کو بھیجنی پڑتی ہے حالانکہ یہ صوبائی حکومت کا اختیار ہے کہ وہ تعلیمی ادارے قائم کرے رکن اسمبلی میر عاصم کرد گیلو نے کہاکہ نصیر آباد ڈویژن وسیع و عریض علاقے پر مشتمل ہے مگر دوسرے ڈویژنوں کی نسبت یہاں پر تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے اگر وہاں پر تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں تو شرح تعلیم میں دو گنا اضافہ ہوجائیگا میر عبدالکریم نوشیرانی نے کہاکہ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جب وزیر تعلیم تھے تو انہوں نے تعلیمی اداروں کے قیام پر خصوصی توجہ دی تھی مگر صرف عمارتوں کی تعمیر سے شرح تعلیم میں اضافہ نہیں ہوگا ماضی میں سکولوں کی عمارتیں قائم کی گئیں مگر وہاں پر اساتذہ تعینات نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے معتبرین نے سکولوں کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا اس وقت بھی صوبے میں جے ای ٹی کی 7 ہزار آسامیاں اور کالجوں میں لیکچراروں کی 7 سو آسامیاں خالی ہیں فوری طور پر ان آسامیوں کو پر کیا جائے رکن اسمبلی شاہدہ رؤف نے کہاکہ بجٹ میں تعلیم کیلئے فنڈز میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے اور اب آئندہ سال کے بجٹ کی تیاری کا موقع آیا ہے بجٹ کی تیاری سے قبل وزیراعلیٰ تمام ارکان کا اجلاس بلا کر بتائیں کہ تعلیمی فنڈ کہاں استعمال کئے گئے رکن صوبائی اسمبلی ولیم برکت نے حسن بانو کو اجلاس کی صدارت کرنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ نصیر آباد ڈویژن بلوچستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اہم زرعی اور تجارتی علاقہ ہے وہاں شرح تعلیم بھی زیادہ ہے یونیورسٹی کیمپس کے قیام سے شرح تعلیم میں اضافہ ہوگا ہینڈری بلوچ نے کہاکہ نصیر آباد ڈویژن میں اقلیتوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے زرعی حوالے سے انتہائی اہم ہے مگر تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے یونیورسٹی کیمپس کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہاکہ ہم قرار داد کی حمایت کرتے ہیں مگر یہ بات حیران کن ہے کہ حکومت میں شامل وزراء کی جانب سے قرار داد کے ذریعے یونیورسٹی کیمپس کے قیام کا مطالبہ کیا جارہا ہے جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اتحادی جماعتوں کے درمیان نظم و ضبط نہیں جس کی وجہ سے حکومتی ارکان بھی اپوزیشن ارکان کی طرح ایوان میں قرار دادیں لارہے ہیں انہوں نے کہاکہ نصیر آباد میں یونیورسٹی کیمپس کیساتھ دیگر تعلیمی ادارے بھی قائم ہونے چاہئیں انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت تعلیم کے فروغ کی بات تو کرتی ہے اور پی ایس ڈی پی میں عمارتوں کی تعمیر کیلئے فنڈز رکھنے کا ذکر تو ہے مگر اساتذہ کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں انہوں نے کہاکہ محسوس ہورہا ہے کہ تعلیم کے مختص فنڈز میں بندر بانٹ ہورہی ہے ایوان نے یہ قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی اجلاس میں صوبائی وزیر نواب محمد خان شاہوانی نے رحمت صالح بلوچ  میر خالد لانگو اور مجیب الرحمان محمد حسنی کی مشترکہ قرار داد نمبر30 پیش کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ گذشتہ دور حکومت میں اربوں روپوں کی سکیمیں جو مختلف اضلاع میں سڑکوں کے نام پر کاغذی حد تک موجود ہیں اور زمین پر کچھ نظر نہیں آتا گزشتہ دور حکومت میں مختلف طریقوں سے عوامی امانت فنڈز کو بے دردی سے لوٹا گیا اور مختلف ٹھیکیداروں کے نام پر ٹینڈر کرواکر پیسے نکوالے گئے اور کوئی بھی کام نہیں ہوا اس ریکارڈ توڑ کرپشن سے صوبے کی بدنامی کیساتھ ساتھ عوام میں مایوسی اور بے چینی پائی جاتی ہے لہٰذا اس بے چینی کو دور کرنے کیلئے مختلف تحقیقاتی اداروں کے ذریعے کرپشن کی انتہائی فوری تحقیقات کرائی جائیں اور ذمہ داروں کو پابند کیا جائے کہ تمام نا مکمل سکیموں کو مکمل کیا جائے اس موقع پر وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ اس قرار داد میں بہت سی چیزیں ہیں جن کو درست کرنا ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ کرپٹ عناصر کی نشاندہی نہ کی جائے اور ان کیخلاف کارروائی نہ کی جائے مگر اس کارروائی میں پوری سابق حکومت کا نام استعمال کیا گیا جو کرپٹ ہیں ان کیخلاف کارروائی کی جائے سب کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے صوبائی وزیر رحمت بلوچ نے کہا کہ ایک تاثر ہے کہ صوبے میں حکومت کی رٹ نہیں حکومت نے قوانین بنائے ہیں مگر ماضی میں کرپشن ہوئی ہے منصوبوں کے پیسے وزراء کی جیبوں میں جاتے رہے میرے حلقے میں سڑکوں کی تعمیر کے نام پر پتھر لاکر پھینک دیئے گئے ہیں جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اکثر ٹھیکے وزراء نے منظور کرواکر اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کو ٹھیکے دیئے گئے سابق وزراء نے دنیا کے مختلف ممالک میں جائیدادیں بنالی ہیں اس موقع پر ڈپٹی سپیکر نے کہاکہ یہ صوبائی حکومت کا معاملہ ہے وزیراعلیٰ اس سلسلے میں اقدامات کررہے ہیں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ یہ قرار داد صوبائی حکومت سے متعلق ہے اور صوبائی حکومت کام کررہی ہے 300 کیسز اینٹی کرپشن اوروزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم کے حوالے کردیئے گئے ہیں جن کی تحقیقات ہورہی ہے ذمہ داروں کا تعین ہونے پر کارروائی ہوگی صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ ایوان کے اپنے رولز ہیں ارکان کو انہیں سمجھنا چاہیے اور رولز کو پڑھنا چاہیے تاکہ غلطی نہ ہو تاہم وزیراعلیٰ نے یقین دہانی کرادی ہے اور محرک بھی زور نہیں دے رہے لہٰذا اس پر بات نہیں ہونی چاہیے وزیراعلیٰ کی یقین دہانی اور محرک کے زور نہ دینے پر ڈپٹی سپیکر نے قرار داد نمٹا دی اجلاس میں صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے سردار مصطفی خان ترین  عبیداللہ بابت  مجید اچکزئی  نصر اللہ زیرے اور منظور کاکڑ کی قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس حقیقت سے کسی ذی شعور کا انکار ممکن نہیں کہ ضلع قلعہ عبداللہ بالخصوص پوست کی پیداوار کے مشہور جبکہ صوبے کے دیگر علاقوں میں ڈرگ کی کھلم کھلا کاروبار جاری ہے صوبے کی معاشی  معاشرتی اور امن و امان کی صورتحال کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتا وہاں صوبے کی نوجوان نسل پر تباہ کن منفی اثرات پڑنا ایک فطری عمل ہے دوسری جانب یہ حیرت زدہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ضلع قلعہ عبداللہ میں ہزاروں ایکڑ پر مشتمل بلا خوف و خطر نہ صرف پوست کی کاشتکاری کی جارہی ہے بلکہ اس وقت ضلع میں کم و بیش 120 چھوٹے بڑے چرس کے کارخانے چرس تیار کرنے میں مصروف ہیں اور یہ سب کچھ عوام کے شدید احتجاجی ردعمل کے باوجود ضلع کی پولیس  ایف سی اور اینٹی نارکوٹیکس فورس یہاں کہ فوج کی موجودگی میں ہورہا ہے لہٰذا یہ ایوان صوبے کے بہترین مفاد میں صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ صوبے کے تمام علاقوں میں پوست کی کاشت فوری طور پر تلف کرنے کیساتھ ساتھ ڈرگ مافیا کیساتھ کسی بھی مصلحت کو خاک میں ملائے بغیر فوری طور پر کارروائی کی جائے نیز ضلع قلعہ عبداللہ میں موجود چرس کے کارخانوں کو اکھاڑ پھینکنے کے عمل کو یقینی بنایا جائے اس موقع پر ڈپٹی سپیکر نے کہاکہ یہ جس نوعیت کی قرار داد ہے اس میں صوبائی حکومت خود کارروائی کرسکتی ہے صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہاکہ اس میں شاید ہماری یا پھر اسمبلی سیکرٹریٹ کی غلطی سے اینٹی نارکوٹکس فورس کا ذکر نہیں آیا کیونکہ اینٹی نارکوٹکس فورس ہی ذمہ دار ادارہ ہے جو کارروائی کرتا ہے اور یہ صوبائی حکومت کے ماتحت نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے ماتحت ہے صوبائی مشیر عبیداللہ بابت نے کہاکہ یہ اہم قرار داد ہے اپریل کے مہینے میں پوست کی کٹائی ہوتی ہے لہٰذا اس حوالے سے فوری کارروائی ہونی چاہیے انہوں نے کہاکہ نہ صرف قلعہ عبداللہ بلکہ میرے ضلع لورالائی سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں پوست کی کاشت کی جارہی ہے کوئٹہ کے سٹی نالے میں منشیات کا سرعام کاروبار ہے اب تو خواتین بھی اس لعنت کا شکار ہورہی ہیں اینٹی نارکوٹکس فورس کے پاس تمام وسائل موجود ہیں اسے فوری کارروائی کرنی چاہیے صوبائی وزیر رحمت بلوچ نے کہا کہ ماضی میں یہاں یہ باتیں کی جاتی رہیں کہ منشیات کی کاشت یہاں ہوگی مگر استعمال یورپ میں ہوگا مگر ہم نے دیکھا کہ ہمارے اپنے بچے منشیات سے متاثر ہورہے ہیں منشیات کی کاشت کو حرام قرار دینے والے سر عام مدارس کو چندہ دیتے رہے ہیں ہمیں منشیات فروشوں کیخلاف کارروائی کیساتھ ساتھ ان کا سوشل بائیکاٹ بھی کرنا ہوگا سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہاکہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میرے ضلع میں پوست کی کوئی کاشت نہیں کی جاتی ثابت کیا جائے تو اسمبلی کی رکنیت چھوڑ دوں گا انہوں نے کہاکہ یہاں دوستوں نے کہاکہ علماء کرام منشیات کیخلاف فتویٰ دیں حالانکہ قرآن میں منشیات کو حرام قرار دیا گیا ہے جس کے بعد فتویٰ کی ضرورت نہیں انہوں نے کہاکہ اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ دیگر اداروں کیساتھ فوج کی موجودگی میں منشیات کا کاروبار ہورہا ہے یہ بالکل غلط ہے فوج سرحدوں کی حفاظت کررہی ہے جنرل ثناء اللہ نیازی اور دیگر نے ملک کیلئے قربانی دی منشیات کا خاتمہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے صرف قلعہ عبداللہ بلکہ صوبے میں جہاں جہاں منشیات کاشت کی جاتی ہیں وہاں پر کارروائی کی جائے اپوزیشن حکومت کیساتھ ہے ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہاکہ یہ قرار داد انتہائی اہمیت کی حامل ہے اپوزیشن سے کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں تعاون کریں انہوں نے کہاکہ شاید دوستوں نے قرار داد کو غور سے نہیں پڑھا قرار داد میں قلعہ عبداللہ ہی نہیں بلکہ پورے صوبے کی بات کی گئی ہے انہوں نے کہاکہ قلعہ عبداللہ میں تمام فورسز کی موجودگی میں پوست کی کاشت کی جاتی ہے گلستان میں ایف سی کے قلعے کے قریب ہی چرس کی فیکٹریاں موجود ہیں یہ ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے انہوں نے کہاکہ افغان انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے جہاں دنیا بھر کے وسائل استعمال ہوئے وہاں پر منشیات کی کاشت کو بھی اس مقصد کیلئے استعمال کیا گیا افغانستان کو اجاڑنے کیلئے منشیات کے کاروبار کو شروع کیا گیا اور اس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں ماضی میں پوست کی کاشت کے حوالے سے جو فتویٰ آیا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں پوست کی کاشت کو درست اور اس کے استعمال کو غلط قرار دیا گیا تھا اب حالات تبدیل ہورہے ہیں ہم جمہوریت کی طرف جارہے ہیں یو این او نے چند سال قبل منشیات کی لعنت کے خاتمے کیلئے ہیلی کاپٹر اور گاڑیاں فراہم کی تھیں مگر کوئی عملی اقدامات نہیں کئے گئے انہوں نے کہاکہ پوست کی کاشت روکنا اے این ایف کی ذمہ داری ہے اور اے این ایف صوبائی حکومت کے ماتحت نہیں اس لئے اس قرار داد کے ذریعے وفاق سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سلسلے کو روکا جائے صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ اے این ایف وفاق کا ادارہ ہے جو قرار داد لائی گئی ہے اس میں کچھ چیزوں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے بنیادی طور پر اس قرار داد کے ذریعے صوبائی حکومت وفاق سے رجوع کرے گی اور مطالبہ کرینگے کہ چونکہ اے این ایف وفاقی ادارہ ہے اور اس کا سربراہ ایک بریگیڈیئر ہے لہٰذا وفاقی حکومت اسے قرار کرے کہ وہ پوست کی فصل کو تلف کریں اس سلسلے میں صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسے فورس فراہم کرے اے این ایف کے مطالبے پر ہم اسے تمام فورس فراہم کرینگے انہوں نے کہاکہ گذشتہ 35 سال سے پوست کی کاشت ہوتی رہی ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے انہوں نے زور دیا کہ اس قرار داد کو منظور کیا جائے ایوان میں ترمیم کیساتھ قرار داد منظور کرلی گئی اجلاس میں سردار مصطفی ترین  سردار رضا محمد بڑیچ  نصر اللہ زیرے  منظور احمد خان کاکڑ  رحمت صالح بلوچ  نوابزادہ محمد خان شاہوانی  خالد لانگو اور فتح بلیدی کی قرار داد کو پیش کرتے ہوئے رحمت بلوچ نے کہاکہ کوئٹہ کی آبادی 30 لاکھ تک پہنچ چکی ہے ماضی میں ہمیشہ شہر کو نظر انداز کیا گیا دیگر مسائل کیساتھ ساتھ شہر کی سڑکیں زیادہ آبادی اور ٹریفک کی وجہ سے اکثر بند رہتی ہیں خاص طور پر سریاب روڈ  مشرقی و مغربی بائی پاس پر ٹریفک جام رہتا ہے لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ سریاب روڈ  مشرقی و مغربی پاس روڈ کو ڈبل کرنے کیلئے اقدامات کرے قرار داد پر نصر اللہ زیرے  سردار عبدالرحمان کھیتران  سردار مصطفی خان ترین  سرفراز ڈومکی  عبیداللہ بابت  پرنس احمد علی  ڈاکٹر شمع اسحاق و دیگر نے اظہار خیال کیا ایوان میں یہ قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی جس کے بعد سپیکر نے اجلاس 31 مارچ کو دن ساڑھے 3 بجے تک ملتوی کردیا ۔