اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان ، سوئٹرز لینڈ اور یمن کی مشترکہ قرار داد منظور ،دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے ڈرون حملے عالمی قانون کے تحت ہونے چاہئیں،اقوام متحدہ، عالمی ادارے کے انسانی حقوق کی سربراہ مسلح ڈرون کے استعمال پر تفصیلی مباحثے کا اہتمام کریں ، تفصیلات سے آگاہ کریں ، ہدایت نامہ ، قرارداد کے حق میں 27 ممالک نے ووٹ ڈالے ، چھ ممالک کی مخالفت ، چودہ ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ،ڈرون حملے خود مختاری کے خلاف ہیں ،قرار داد کا مقصد کسی ملک کا نام لے کر اسے شرمندہ کرنا نہیں ،پاکستان

جمعہ 28 مارچ 2014 21:24

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔28مارچ۔2014ء) اقوام متحدہ نے دنیا کے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ بغیر پائلٹ والے ڈرون طیاروں کے استعمال کرتے وقت بین الاقوامی قوانین کو ملحوظ خاطر رکھیں ،ڈرون حملے عالمی قانون کے تحت ہونے چاہئیں برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں پاکستان کی قرار داد کو یمن اور سوئٹرزلینڈ نے مشترکہ طور پر پیش کیا جس میں کسی ملک کا نام لیے بغیر ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال میں بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنے کی بات کی گئی تھی،اقوامِ متحدہ کی 47اراکین پر مبنی انسانی حقوق کی کونسل میں پیش کردہ اس قرارداد کے حق میں 27 ممالک نے ووٹ ڈالے جبکہ چھ ممالک نے اس کی مخالفت کی۔

چودہ ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

(جاری ہے)

قرارداد کی مخالفت میں ووٹ ڈالنے والوں میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی کونسل نے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اگر دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بشمول ڈرون، ان کی طرف سے اختیار کردہ تمام اقدامات عالمی قوانین کے تحت ہوں۔قراراداد میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی تفتیش کار بین ایمرسن کی حالیہ رپورٹ کی روشنی میں ڈرون حملوں میں عام لوگوں کی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

قرارداد میں عالمی ادارے کے انسانی حقوق کی سربراہ نوی پلے سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مسلح ڈرون کے استعمال پر ایک تفصیلی مباحثے کا اہتمام کریں اور ستمبر میں اقوامِ متحدہ کو اس کی تفصیلات سے آگاہ کریں۔قرارداد کی مخالفت کرنے والے ممالک میں برطانیہ، فرانس اور امریکہ نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے ایجنڈے پر ہتھیاروں کے نظام جیسے معاملات نہیں ہونے چاہئیں۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں پاکستان کے سفیر ضمیر اکرم نے کہا کہ ان کا مقصد کسی ملک کا نام لے کر اسے شرمندہ کرنا نہیں، انھوں نے کہا کہ یہ ایک اصول کی بنیاد پر کیا گیا پاکستان کا موقف ہے کہ ڈرون حملوں میں عام شہری ہلاک ہوتے ہیں اور ڈرون حملے اس کی جغرافیائی خود مختاری کی خلاف ورزی ہیں۔ادھر امریکی نائب معاون سیکرٹری نے کہا کہ امریکہ کی پالیسی رہی ہے کہ اس کی قومی سلامتی کی ضروریات کے پس منظر میں تمام اقدامات جن میں ڈرون کا استعمال بھی شامل ہے، ملکی اور عالمی قوانین کے تحت اٹھائے جائیں اور ان میں جس حد تک ہو سکے شفافیت ہو۔

واضح رہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 2004 سے امریکی ڈرون حملے جاری ہیں جس کے نتیجے میں اب تک ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ امریکی حکام کا اس حوالے سے دعویٰ ہے کہ حملوں میں مارے جانے والے زیادہ تر عسکریت پسند ہیں ۔گزشتہ سال شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان کے امیر حکیم اللہ محسود کو اس وقت نشانہ بنایا گیا تھا جب حکومت اورطالبان کے درمیان امن مذاکرات شروع ہونے والے تھے جس کے بعد حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے اورپاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر شروع ہوگئی۔