سینیٹ کی فنگشنل کمیٹی کا برائے کم ترقیاتی علاقوں کے مسائل کا اجلاس،آئندہ اجلاس میں متعلقہ سیکرٹری طلب، حکومت کا پی ٹی سی ایل میں 76 فیصد شیئر ہونے کے باوجود ادارے پرکوئی خاص کنٹرول نہیں،کمیٹی میں انکشاف،کیسکواوراین ٹی ڈی سی کے اعلیٰ حکام کو عدم شرکت کی وجہ سے نوٹس جاری کرنے کافیصلہ

منگل 18 مارچ 2014 19:19

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔18مارچ۔2014ء) سینیٹ کی فنگشنل کمیٹی برائے کم ترقیاتی علاقوں کے مسائل کا اجلاس چیئرمین کمیٹی میر محمد یوسف بادینی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں پی ٹی سی ایل کے پاکستان میں جاری منصوبہ جات ، پی ٹی سی ایل کا 2010 سے 2014 تک منافع اور پی ٹی سی ایل کی شیئر ہولڈر کمپنی اتصلات کا منافع ، حکومت پاکستان اور اتصالات کمپنی کے معاہدے کے تحت اتصالات کے بقایا جات،کیسکو کے ٹرانسمشن کے معاملات اور یونیورسل سروسزفنڈ کے مستقبل کے منصوبہ جات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ حکومت کا پی ٹی سی ایل میں 76 فیصد شیئر ہونے کے باوجود ادارے پرکوئی خاص کنٹرول نہیں ہے اتصالات کمپنی کا 26 فیصد شیئر ہے اور اُس کے ووٹنگ رائٹس زیادہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو جوابدہ نہیں ہے اور اس ادارے کا 2006 سے اب تک کو ئی آڈٹ بھی نہیں ہوااور اُنہوں نے سینیٹ کی اس کمیٹی کے سوالات کے جوابات دینے سے بھی انکار کر دیا جس پر کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ سیکرٹری کو آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا ۔

(جاری ہے)

فنگشنل کمیٹی کے اجلاس میں کیسکو کے اور این ٹی ڈی سی کے اعلیٰ حکام کے عدم شرکت کی وجہ سے اُنہیں نوٹس بھی جاری کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ۔ یونیورسل سروسز فنڈ کے حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ہمارے معاہدے کے مطابق ہمیں احکامات جاری کیے گئے تھے کہ ہم اُن علاقوں میں کام کریں گے جہاں پہلے کام نہیں کیا ہو گا اور 2009 سے اب تک 23 لائسنس اپریٹر کام کررہے ہیں جو سروس کی فراہمی کے امور سرانجام دیتے ہیں ہم صرف ٹینڈر جاری کرتے ہیں اور کم پیسے والوں کی سروسز حاصل کر لیتے ہیں 2015 تک 95 فیصد آبادی کو ہماری سروس فراہم کر دی جائے گی چاروں صوبوں اور فاٹا سمیت 507 ٹیلی سینٹر قائم کیے جارہے ہیں یہ صوبوں کی بتائی ہوئی جگہوں پر قائم کیے جائیں گے اور فاٹا میں7ٹیلی سینٹر قائم کیے جائیں گے اُنہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں یو ایس ایف کا پاکستانی ماڈل فالو کیا جا رہا ہے اور ورلڈ بینک بھی اس کی سروسز لینے کا خواہاں ہے ۔

متعلقہ عنوان :