امریکی و برطانوی ذرائع ابلاغ میں ملائیشیا کے لاپتہ طیارے کا رخ پاکستان کی طرف

ہفتہ 15 مارچ 2014 21:04

امریکی و برطانوی ذرائع ابلاغ میں ملائیشیا کے لاپتہ طیارے کا رخ پاکستان ..

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔15مارچ۔2014ء) امریکی و برطانوی ذرائع ابلاغ نے ملائیشیا کے لاپتہ طیارے کے متعلق ممکنہ ہائی جیک کی رپورٹوں میں پاکستان کی طرف اشارے کیے ہیں۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق نے کہا ہے کہ مواصلاتی سیارے اور ریڈار سے حاصل شواہد کی بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ طیارہ آخری رابطے کے بعد مزید سات گھنٹے فضا میں رہا جو قازقستان سے بحر ہند کے درمیان کہیں بھی ہو سکتا ہے۔

انہوں نے تلاش کو دو ممکنہ قوس (راہداریوں) شمالی جو قازقستان سے شمالی تھائی لینڈ اور بحر ہند تک پھیلانے کا اعلان کیا۔ امریکی اخبار ”واشنگٹن پوسٹ“ نے پاکستانی سول ایوی ایشن حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر ملائشین طیارے نے وسطی ایشیاء میں قازقستان تک سفر کیا تو ممکنہ طور وہ پاکستان کے شمالی علاقے سے پرواز کر کے گیا ہوگا۔

(جاری ہے)

پاکستان سول ایویشن اتھارٹی کے ترجمان عابد قائم خانی نے کہا ہے کہ طیارے کی تحقیق اور تلاش میں کسی بھی طرح کی مدد کیلئے نہیں کہا گیا۔

تاہم انہوں نے اس میں انتہائی شک وشبہات کا اظہار کیا کہ ریڈار یا فوجی طیارے کو نظر آئے بغیر طیارہ اتنا طویل سفر کیسے کرسکتا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا ہے کہ ہم ایک مضبوط ریڈار سسٹم رکھتے ہیں اور بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کے پا س بھی مضبوط نظام ہے، یہ مشکل ہے کسی کی نشاند ہی میں آئے بغیر جہاز اتنا طویل سفر کرے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کے ساتھ اس معاملے میں ا مداد کے حصول کی کوئی باضابطہ بات چیت نہیں ہوئی۔ امریکی نشریاتی ادارے ”سی این این“ کے مطابق اگر طیارے نے مغرب کی طرف رخ موڑا تو اس کے پاس بھارت یا پاکستان تک سفر کرنے کیلئے ایندھن ہوگا۔ سی این این کے قانونی تجزیہ کار ٹام فیونٹس کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے کیلئے طیارے میں کافی ایندھن تھا، اس کامطلب کہ کسی خاص مقصد کیلئے کوئی شخص اس طیارے کو اس سمت اڑا رہا تھا، وہ ہائی جیکر یا خو دپائلٹ بھی ہوسکتا ہے، جب طیارہ فضا میں تھا تو کسی کے ہاتھ اس کا کنٹرول تھا۔

سابق ایف بی آئی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جیمز کالسٹرام کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہے کہ جہاز نے لینڈ کیا ہو، لیکن کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کیلئے مزید معلومات درکار ہے۔ انہوں نے تلاش کیلئے وسیع علاقے کی طرف اشارہ کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ایک قوس کھینچتے ہیں تو اس میں پاکستان جیسے ممالک بھی نظر آتے ہیں۔ امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ لکھتا ہے کہ ملائشین وزیرا عظم نجیب نے جس شمالی قوس کا ذکر کیا وہ دنیا کے ان ممالک میں سے یا ان کے قریب سے گزرتی ہے جو عسکریت پسندوں اور دہشت گردی کی وجہ سے سورش زدہ ہیں لیکن کچھ عسکری اور فضائی لحاظ سے انتہائی اہم علاقے ہیں جن میں کچھ علاقے امریکی فوج کے زیر تحت بھی ہیں، یہ قوس شمالی ایران، افغانستان اور شمالی پاکستان سے گزرتی ہے اور شمالی بھارت، ہمالیہ سلسلے اور میانمار سے بھی گزرتی ہے۔

اگر طیارہ اس قوس سے گزرتا ہے تو یہ پاکستان اور بھارت کی فضائی حدود سے گزرا ہوگا جن کی باہمی سرحد پر فوج کی انتہائی زیادہ تعداد ہے اور افغانستان میں جہاں نیٹو اور امیریکی افواج بھی ہیں۔ گلوبل ایوی ایشن ٹریکنگ سروس کے بانی مائیکل رابرٹسن کا کہنا ہے کہ جہاز کا مواصلاتی نظام بند کرانے سے کسی فضائی ماہر کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ جاتا ہے جو اس فضائی راستے سے واقف تھا، وہ عملے کا فرد بھی ہو سکتا ہے اور یقیناً اسے کوئی کنٹرول کر رہا تھا اور پاکستان پہنچ سکتا ہے۔

طیارے کے پاس اتنا ایندھن تھا وہ پاکستان، سری لنکا یا آسٹریلیا تک جا سکتا تھا۔ برطانوی اخبار ”دی میل“ کی سرخی ہے کہ سیٹلائٹ ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ ہائی جیک ایم ایچ 370کو آخری بار پاکستان کی طرف پروازکرتے دیکھا گیا۔ اخبار نے تحقیق کاروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ لاپتہ ملائشین طیارے کو ہائی جیک کیا گیا، اسے یقیناً کنٹرول کیا گیا اور وہ پاکستان پہنچ سکتا ہے۔

امریکی اخبار ”وال اسٹریٹ جرنل“ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ کہ ریڈار سے غائب ہونے کے بعد طیارہ تقریباً پانچ گھنٹے تک پرواز کرتا رہا، اگر طیارے نے پرواز جاری رکھی تو وہ 2200ناٹیکل میل تک سفر کرسکتا تھا اور ممکنہ طور پر طیارہ شمال مغربی بھارت یا پاکستان کی سرحد تک پہنچا ہوگا۔ ڈیلی ٹیلی گراف لکھتا ہے کہ اگر طیارے نے شمال کی طرف پرواز کی تو اس کا راستہ پاکستان، افغانستان اور چین کا مقبوضہ علاقہ یوگور ہو گا، اگر جنوب کی طرف گیا تو وہ آسٹریلیا کے جزیروں تک پہنچا ہوگا۔

امریکی نشریاتی ادارے ”فوکس“ سے بات کرتے ہوئے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ٹام میک لنرنی نے کہا کہ امریکا ملائشیا کے لاپتہ طیارے کے متعلق بہت کچھ جانتا ہے لیکن اسے پبلک نہیں کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے طیارے کی گمشدگی میں کسی مجرمانہ ہاتھ پر شک ہے اور ممکن ہے کہ طیارے نے کسی جگہ لینڈ کیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور مشرقی ایران سمیت تمام فضائی فیلڈ کو چیک کیا جا نا چاہیے۔

برطانوی اخبار ”ایکسپریس“ نے سوشل میڈیا سے شیری وٹن ڈکر کا حوالہ دے کر لکھا کہ لاپتہ طیارے کا راستہ پاکستان کی طرف ہوسکتا ہے اور اسے یقین ہے کہ وہ قیدی تھے جو وہ کچھ چاہتے ہیں یا مسقبل میں انہیں ضرورت پڑے گی۔ برطانوی اخبار ”گارجیئن“ نے لکھا ہے کہ ممکنہ کوریڈور میں برما، بنگلا دیش، بھارت، پاکستان، کرغیزستان، چین، نیپال، تاجکستان اور افغانستان شامل ہیں۔