مذاکرات کی میز کومکمل طور پر بیوروکریٹس کے حوالے کرنے کے بجائے وزیر اعظم سیاسی شخصیات کو لے کر مذاکرتی ٹیم کی قیادت خود کریں ‘ سید منور حسن ،جنگ بندی کے 11دن گزر جانے کے بعد بھی حکومت کی طرف سے کمیٹی تشکیل نہ دیئے جانے اور تاخیری رویوں سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ،حکومت غیر سنجیدہ رویہ ترک کرکے خود مذاکرات کی میز پر بیٹھے اورمذاکرات کو تعطل اور طوالت کا شکار نہ کرے‘ امیر جماعت اسلامی کا انٹرویو

منگل 11 مارچ 2014 19:59

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔11مارچ۔2014ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منورحسن نے کہا ہے کہ طالبان کی طرف سے جنگ بندی میں توسیع خوش آئند جبکہ حکومت کی طرف سے مذاکرات میں بیوروکریٹس کوشامل کرنے کے فیصلے سے عوام کے اندر کنفیوزن اور غیر یقینی صورتحال نے جنم لیا ہے ،مذاکرات کی میز کومکمل طور پر بیوروکریٹس کے حوالے کرنے کے بجائے وزیر اعظم اپنے ہمراہ سیاسی شخصیات کو لے کر مذاکرتی ٹیم کی قیادت خود کریں ،حکومت نے سنجیدہ رویہ نہ اپنایا تومذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھے گی اور ملک و قوم بدامنی کی نہ ختم ہونے والی دلدل میں پھنس جائیں گے ،ملٹری آپریشن کا مطالبہ کرنے والے بدامنی پر قابو پانے کیلئے نہیں بلکہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے کوشاں ہیں،جنگ بندی کے 11دن گزر جانے کے بعد بھی حکومت کی طرف سے کمیٹی تشکیل نہ دیئے جانے اور تاخیری رویوں سے شکوک و شبہات جنم لے رہے اور چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں ،وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو ان تمام پہلوؤں پر بھی توجہ دینی چاہئے،اے پی سی میں اتفاق رائے کے بعد کئی ماہ تذبذب میں گزارنے کی وجہ سے ہی پارٹیوں میں مذاکرات پر اختلافات نے جنم لیا ہے جو نیک شگون نہیں ،مسئلہ کشمیر کشمیر ی عوام کی قربانیوں کی بدولت زندہ ہے،مشرف اور ان کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس کو دفناکر مٹی ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، جو حکمران دشمن کی شان میں قصیدے پڑھیں اور خیر خواہوں کی بات پر کان نہ دھریں ان کو گڑھے میں گرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا ،نواز شریف جتنا بڑا مینڈیٹ بھی لے آئیں اور بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں، پاکستانی عوام کا کشمیر پر وہی موقف رہے گا جو سید علی گیلانی کا ہے ۔

(جاری ہے)

ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے سید منورحسن نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات میں حکمران ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والی صورتحال سے دوچار ہیں ،جس سے مذاکراتی عمل کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے ۔وہ سرکاری ملازم جو ایک ایک بات پر حکمرانوں کی طرف دیکھنے کے محتاج ہوں، مذاکرات کی کامیابی میں کوئی تسلی بخش کردار اداکرنے کے قابل نہیں ہونگے ۔

حکومت غیر سنجیدہ رویہ ترک کرکے خود مذاکرات کی میز پر بیٹھے اورمذاکرات کو تعطل اور طوالت کا شکار نہ کرے ۔طالبان کی طرف سے جنگ بندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کو جلد از جلد اس معاملے کو نپٹانا چاہئے ۔سید منورحسن نے کہا کہ حکمران قدم قدم پر امریکی مرضی معلوم کرتے ہیں ،امریکہ خطہ چھوڑنے سے پہلے یقین دہانی چاہتا ہے کہ اس کے مفادات پر آنچ نہیں آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کی بقا اس میں ہے کہ افغانوں کے ہاتھوں بننے والی درگت کے بعد بچی کھچی عزت کے ساتھ واشنگٹن واپس چلا جائے اور دنیاپر حکمرانی کے خواب دیکھنا چھوڑ دے ۔ انہوں نے کہا کہ افغان قیادت کا یہ گلہ بھی دور ہونا چاہئے کہ پاکستان اس کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے ،افغانستان کے متعلق فیصلوں کا اختیار افغانوں کو ہی ہونا چاہئے ،انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان امریکی و بھارتی مداخلت روکنے میں کامیاب ہوجائے توملک میں امن قائم ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ اپنے 20/25ہزار فوجی خطے میں رکھ کر اپنی دم پھنسائے رکھنا چاہتا ہے ،ہاتھی کی دم بھی بڑے مسائل پیدا کرتی ہے ،اس لئے حکومت کو امریکہ کے اس منصوبے کی قطعا ًحمایت نہیں کرنی چاہئے ۔ جب تک امریکہ کا ایک سپاہی بھی افغانستان میں موجود ہے ، پورے خطہ کو دہشتگردی سے پاک نہیں کیاجاسکتا ۔