ضلع کچہری حملے میں جج رفاقت اعوان اپنے ہی گارڈ کی گولی سے جاں بحق ہوئے، وزیر داخلہ، امریکا جیسا ملک اربوں ڈالر خرچ کرکے بھی محفوظ نہیں رہا لیکن ہمیں دہشت گردی اور معمول کے واقعات میں فرق کرنا چاہیے، چوہدری نثار علی خان کا قومی اسمبلی میں‌خطاب

جمعرات 6 مارچ 2014 20:56

ضلع کچہری حملے میں جج رفاقت اعوان اپنے ہی گارڈ کی گولی سے جاں بحق ہوئے، ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔6مارچ۔2014ء) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے ضلع کچہری حملے کے دوران جج رفاقت اعوان کے گارڈ سے بدحواسی میں گولیاں چل گئیں جس کی زد میں آکر وہ جان بحق ہوگئے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارخیال کرتے ہوئے چوہدری نثارعلی نے کہا کہ ملک گزشتہ 13 سال سے اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے، دہشت گردی کے واقعات مسلم ممالک میں بہت زیادہ ہورہے ہیں، امریکا جیسا ملک اربوں ڈالر خرچ کرکے بھی محفوظ نہیں رہا لیکن ہمیں دہشت گردی اور معمول کے واقعات میں فرق کرنا چاہیے، انہوں نے اپوزیشن اراکین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے داخلہ پالیسی کی دستاویز تک نہیں پڑھی انہوں نے اس پر دھواں دھار تقریر کرڈالی، دہشت گردی کے معاملے پر پرجوش تقرریں کرنے والے اپوزیشن ارکان اپنا دور یاد کریں، آج سیکیورٹی ایجنسیوں میں خامیاں نظر آتی ہیں اپوزیشن نے اپنے دور اقتدار میں کیا کیا، کسی بھی ملک میں دہشت گردی کا واقعہ ہو تو حکومت اور اپوزیشن اکٹھی ہوتی ہے لیکن کاش اس اہم قومی مسئلے پر ہماری اپوزیشن کی جانب سے بھی کوئی مثبت پیغام آتا۔

(جاری ہے)

چوہدری نثار نے ضلع کچہری واقعے کی ابتدائی رپورٹ سے ایوان کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایف ایٹ کچہری کی تحقیقات مکمل ہوچکیں، حملے کے ٹارگٹ ایک جج تھے جو اس دن عدالت میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے حملے کے دوران جج رفاقت اعوان اپنے گارڈ ہی کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے، گارڈ کی انگلی ٹریگر پر تھی اور خودکش دھماکا ہوتے ہی اس سے گولیاں چل گئیں جو رفاقت اعوان کو لگیں جس کا ان کے گارڈ نے اعتراف کرلیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ضلع کچہری پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی معلومات اکٹھی کرلیں ہیں، سیکیورٹی اداروں نے اہم شواہد جمع کرلئے جن کے ذریعے ذمہ داروں کا تعین کرلیا جائے گا اور میں یقین دلاتا ہوں حملہ کرنے والوں کو عوام کی عدالت میں پیش کروں گا۔امن مذاکرات کے حوالے سے چوہدری نثار نے کہا کہ مذاکراتی عمل کی منظوری اے پی سی میں دی گئی تھی اور اس عمل کو اس لئے آگے بڑھایا جارہا ہے کہ یہ ایک آپشن تھا، یہ ابہام دور ہونا چاہئے کہ ہم کمزور ہیں، پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ دہشت گردی ہوئی تو جوابی کارروائی کی گئی اور آج بھی دہشت گردی سے متعلق حکومت کی یہی پالیسی ہے، مذاکرات کرنے والوں سے مذاکرات کریں گے اور دہشت گردی کرنے والوں سے انہی کی زبان میں بات کی جائے گی۔

۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان سے براہ راست مذاکرات پر ایوان کو اعتماد میں لیا جائے گا اور کوشش ہے کہ آئندہ ہفتے سے طالبان سے براہ راست مذاکرات شروع ہوجائیں۔