سینیٹ اجلاس، حکومت کی طرف سے اسلام آباد کچہری دہشتگردی حملہ کی رپورٹ نہ پیش کرنے پر احتجاج،اپوزیشن نے فوج کو طالبان سے مذاکرات میں شامل کرنے کی مخالفت کردی

جمعرات 6 مارچ 2014 19:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔6مارچ۔2014ء) سینیٹ میں حکومت کی طرف سے اسلام آباد کچہری دہشتگردی حملہ کی رپورٹ نہ پیش کرنے پر احتجاج ،اپوزیشن نے فوج کو طالبان مذاکرات میں شامل کرنے کی مخالفت کردی۔ جمعرات کو چیئرمین سینیٹ نیئرحسین بخاری کی زیر صدارت اجلاس میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایم کیوایم کے سینیٹر بابر غوری نے کہا کہ حکومت نے آج سینیٹ میں اسلام آباد دہشتگردی واقعہ کی رپورٹ پیش کرنا تھی حکومت اس حوالے سے جواب دے کہ کب تک دہشت گرد لوگوں کو مارتے رہیں گے اور حکومت مذاکرات کرتی رہے گی۔

قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم نے تمام تینوں آل پارٹیز کانفرنسوں میں مذاکرات کی حمایت کی ان کی تقاریر اور اے پی سی کے اعلامیہ پر دستخط کا ریکار ڈ موجود ہے سینیٹر حاجی عدیل بھی ان تمام آل پارٹیز کانفرنسوں میں شریک تھے وہ بھی اس کی تصدیق کر سکتے ہیں ۔

(جاری ہے)

سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ تینوں آل پارٹیز کانفرنسوں میں یہ طے پایا تھا کہ آئین ، حکومت ، ریاست، پارلیمنٹ اور عدلیہ کو تسلیم کرنے والے گروپوں سے مذاکرات کئے جائینگے ۔

تحریک طالبان کے ترجمان نے واضح قرار دیا کہ وہ آئین کو مانتے ہیں نہیں ورنہ جنگ لڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ حاجی عدیل نے کہا کہ حکومت طالبان سے مذاکرات کرکے تینوں آل پارٹیز کانفرنسوں کے فیصلوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے ۔ سینیٹر بابر غوری نے کہا کہ اے پی سی میں کہا گیا تھا کہ حکومت ان گروپوں سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے جو دہشتگردی نہیں کر رہے ۔

سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں سیاسی جماعتوں نے طالبان کو مذاکرات کے نام پر کوئی عوام کو مارنے کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا تھا۔ کل چھ ایف سی اہلکاروں کو شہید کرنے کی ذمہ داری قبول کرنے والے انصار المجاہدین کا تعلق بھی تحریک طالبان سے ہے طالبان سے مذاکرات کیلئے قائم کمیٹیاں کل ایف سی جوانوں کی شہادت پر اکوڑہ خٹک میں جشن منا رہی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سول حکومت ہے کوئی ڈکٹیٹر شپ نہیں کہ فوجی طالبان سے مذاکرات کریں ۔ فوج حکومت کی ہدایات کی پابند ہے مذاکرات حکومت کو کرنے چاہئیں۔ سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ اسلام آباد کچہری میں دہشت گردی واقعہ میں شہید ہونے والے نوجوان خاتون وکیل فضہ کا گھر اسلام آباد میں ہے مگر کل جب ان کے گھر تعزیت کیلئے گئے تو شہید وکیل کے والد نے گلہ کیا حکومت پاکستان کی طرف سے اب تک کسی نے ان کو نہیں پوچھا۔

حکومت وزراء کی فوج ہے وہ کیا کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں سویلین حکومت اپنی جان چھڑا نے کی تک و دو میں لگی ہے اور اب مذاکرات کیلئے بھی فوج کو آگے کیا جا رہاہے انہون نے کہا کہ حکومت کی انٹیلی جنس ناکامی ہوتی ہے تو طالبان سے پوچھتے ہیں کہ وہ بتائیں اسلام آباد میں دہشتگردی کس نے کی ۔ حکومت کی خارجہ پالیسی یہ ہے کہ شام میں غیر ریاستی عناصر کی حمایت کر رہے ہیں۔

سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ جب بھی مسلم لیگ ن کی حکومت آتی ہے پارلیمان کو نظر انداز کیا جاتاہے جس کے نتیجہ میں سازشیں جنم لیتی ہیں اور پھر ماورائے آئین اقدام سے ملک میں دس برس کیلئے جمہوریت معطل کر دی جاتی ہے۔حکومت فوج کو مذاکرات میں شامل کرنے کا اقدام ان طالبان کے کہنے پر کر رہی ہے جنہوں نے پاکستان کی فوج، سیکیورٹی اداروں ، پارلیمنٹرینز، عدلیہ اور میڈیا سمیت تمام اداروں کو نشانہ بنایا اور پاکستان کے اداروں کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ سول حکومت کو جو جمہوریت میں جگہ ملی ہے اس کو سمجھنا چاہئے ۔ اگر حکومت نے اپنی جگہ پھر دوسرے کے حوالے کر دی تو مستقبل میں اس کے انتہائی بھیانگ نتائج نکل سکتے ہیں۔