ہر اس شخص سے ڈائیلاگ کیا جائے گا جو آئین پاکستان کو مانتا ہے ،ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے جو لوگ ہماری شریعت کو نہیں اور اپنی گھڑی ہوئی شریعت منوانا چاہتے ہیں انکے خلاف ایکشن ہونا چاہئے، میجر (ر) طاہر اقبال ، سلامتی پالیسی میں بہت سا اچھا ڈیٹا ہے ، کچھ کیس سٹیڈیز آ جاتیں تو اچھا ہوتا پاکستان کو جو خطرات لاحق ہیں انکی اقسام نہیں بنائی گئیں جب تک خطرات کا تعین نہیں ہو گا انکا تدارک مشکل ہے ، مذہبی دہشتگردی کیلئے جامع پالیسی بنانا ہو گی،ڈاکٹر شیریں مزاری ،ترقی یافتہ ممالک انٹرنل پالیسی بنانے میں سالوں لگاتے ہیں ہماری پالیسی مہینوں میں بنا دی گئی جو قابل تحسین ہے ،سلمان بلوچ ،ہمارے ملک میں مذہبی مقامات بھی محفوظ نہیں ہیں تنقیدکا وقت نہیں افہام و تفہیم سے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کا وقت ہے،فاٹا کے علاقہ کو اس پالیسی میں نظر انداز کیا ہے فاٹا میں بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں ،مساجد کو پوائنٹ آؤٹ نہ کیا جائے منافرت نہ پھیلائی جائے فرقہ واریت کا مسئلہ مصلحت سے حل کیا جائے ،نواب یوسف تالپور ، مولانا محمد خان شیرانی ،صاحبزادہ طارق اللہ اور دیگر ارکان اسمبلی کا قومی داخلی سلامتی پالیسی پر بحث میں اظہار خیال

بدھ 5 مارچ 2014 20:20

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔5مارچ۔2014ء) قومی اسمبلی میں قومی داخلی سلامتی پالیسی پر بحث کرتے ہوئے ارکان قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ ہر اس شخص سے ڈائیلاگ کیا جائے گا جو آئین پاکستان کو مانتا ہے ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے جو لوگ ہماری شریعت کو نہیں اور اپنی گھڑی ہوئی شریعت منوانا چاہتے ہیں انکے خلاف ایکشن ہونا چاہئے ، سلامتی پالیسی میں بہت سا اچھا ڈیٹا ہے اس پالیسی میں کچھ کیس سٹیڈیز آ جاتیں تو اچھا ہوتا پاکستان کو جو خطرات لاحق ہیں انکی اقسام نہیں بنائی گئیں جب تک خطرات کا تعین نہیں ہو گا انکا تدارک مشکل ہے مذہبی دہشتگردڈی کیلئے جامع پالیسی بنانا ہو گی،ترقی یافتہ ممالک انٹرنل پالیسی بنانے میں سالوں لگاتے ہیں ہماری پالیسی مہینوں میں بنا دی گئی جو قابل تحسین ہے ،ہمارے ملک میں مذہبی مقامات بھی محفوظ نہیں ہیں تنقیدکا وقت نہیں بلکہ افہام و تفہیم سے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کا وقت ہے۔

(جاری ہے)

فاٹا کے علاقہ کو اس پالیسی میں نظر انداز کیا ہے فاٹا میں بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں ،مساجد کو پوائنٹ آؤٹ نہ کیا جائے منافرت نہ پھیلائی جائے فرقہ واریت کا مسئلہ مصلحت سے حل کیا جائے ۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں قومی داخلی سلامتی پالیسی پر بحث کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے میجر (ر) طاہر اقبال نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہر اس شخص سے ڈائیلاگ کیا جائے گا جو آئین پاکستان کو مانتا ہے ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے جو لوگ ہماری شریعت کو نہیں اور اپنی گھڑی ہوئی شریعت منوانا چاہتے ہیں انکے خلاف ایکشن ہونا چاہئے ایسے لوگوں سے بات نہیں ہو سکتی جعلی سم کی روک تھام کرنا بہت ضروری ہے اجڑے لوگوں کو آباد کرنا گورنمنٹ کا فرض ہے انفارمیشن سینٹر ضلع کی سطح پر بنائے جائیں تاکہ فوری خبر پرفوری ایکشن ہو ۔

ریپڈ رسپانس فورس میں ویل ٹرینڈ لوگ ہونے چاہئیں۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نواب یوسف تالپور نے کہا کہ قومی داخلی سلامتی پالیسی آ گئی ہے اور ایف ایٹ میں دہشتگردی کا واقعہ ہوا ہے طالبان سے مذاکرات ہو رہے اسلام آباد میں ایسے واقعات سے برا اثر پڑتا ہے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کی میٹنگ میں ورکنگ پیپر تھا کہ اسلام آباد کو خطرہ ہے وزیر داخلہ کا بیان آیا کہ نہیں اسلام آباد محوظ ہے ہماری 33 انٹیلی جنس ایجنسیاں کس کام کی ہیں بلوچستان میں بلوچوں سے بات کیوں نہیں کی جاتی۔

جو لڑیں لوگوں کو ماریں تو ان سے بات کرتے ہیں سب سے بات ہونی چاہئے پارلیمنٹ پر ہمارے اپنے رکن نے الزامات لگائے کوئی بھی 100 فیصد مکمل نہیں ہوتا اس ایشو پر کمیٹی بنا دی گئی ہے پوری پارلیمنٹ پر الزام لگانا قابل قبول نہیں ہے وزیراعظم کو سمری بجوائی گئی ہے کہ پی پی پی نے جو 65 ہزار ملازمین بحال کئے ہیں وہ غیر قانونی ہیں انہیں فارغ کیا جا رہا ہے یہ زیادتی ہے ۔

جے یو آئی ف کے مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ لوگوں کو اسلام سے بیزار کرنے کیلئے عالمی سطح پر انسداد دہشتگردی کے نام پرفروغ دہشتگردی کی گئی دہشتگردی کے عمل میں ہمارا کردار کرایہ کا ہے فوج کو سرحد سے ہٹا کر ملک کے اندر لا کر یہ تاثر دیا ہے کہ ہماری اندرونی دشمن سرحد پار دشمنوں جیسے ہیں۔ اندرون ملک خلفشار کو بیرونی جارحیت کا درجہ دیا ہے اس پالیسی کے دفعہ 14 میں کہا ہے پاکستان کا ہر باشندہ مادر زاد مجرم ہے اس نے اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہے دفعہ 3 میں تمام مسلح اداروں کو پولیس کے اختیارات دیئے ہیں یہ خودی مدعی، خود گواہ، خود عدالت اور خود فیصلہ پر عمل کرائے گااگر ملک کو توڑنا ہی مقصود ہے تو پھر نا حق خون نہ بہایا جائے اس پالیسی کا مرکزی خیال ہے کہ ملک کے دینی ادارے اور مدرسے خاص ٹارگٹ پر رہیں گے دفاعی نقطہ نظر سے ۔

پاکستان تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ سلامتی پالیسی میں بہت سا اچھا ڈیٹا ہے اس پالیسی میں کچھ کیس سٹیڈیز آ جاتیں تو اچھا ہوتا پاکستان کو جو خطرات لاحق ہیں انکی اقسام نہیں بنائی گئیں جب تک خطرات کا تعین نہیں ہو گا انکا تدارک مشکل ہے مذہبی دہشتگردی کیلئے جامع پالیسی بنانا ہو گی یہ گروپ صرف فاٹا میں نہیں صوبہ پنجاب میں بھی ہیں ہمیں امریکہ کی جنگ سے علیحدہ ہونا ہو گا طالبان کی گروپنگ کی ضرورت ہے جو مذاکرات چاہتے ہیں ان سے مذاکرات کریں باقی گروپ کے خلاف کارروائی ہو سب کو اکٹھا نہیں دیکھنا چاہئے ۔

رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے کہا کہ لاجز کے معاملہ پر کمیٹی میں تمام جماعتوں کے لوگ کو شامل نہیں کیا گیا جماعت اسلامی کے ممبران میں سے بھی رکن کو شامل کیا جائے سپیکر صاحب آپ خود سربراہی کریں ہمیں آپ پر اعتماد ہے جس پر اسپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ ہاؤس کی کارروائی میں مداخلت نہ کریں کمیٹی بن چکی ہے جس وقت کمیٹی بن رہی تھی اس وقت اعتراض کرنا تھا۔

ایم کیو ایم کے سلمان بلوچ نے کہاکہ ترقی یافتہ ممالک انٹرنل پالیسی بنانے میں سالوں لگاتے ہیں ہماری پالیسی مہینوں میں بنا دی گئی جو قابل تحسین ہے ایک طرف سیکیورٹی پالیسی پر بحث ہو رہی ہے دوسری طرف دہشتگردوں کے حملے جاری ہیں ہم کب تک مذاکرات مذاکرات کھیلتے رہیں گے پاکستان کی عوام چاہتی ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف ایکشن ہو ۔ لنڈی کوتل اور اسلام آباد واقعہ کی تحقیقات کرائی جائیں کہ ان کے پیچھے کونسا گروپ جو مذاکرات کر رہا ہے اور جس نے سیز فائر کیا ہے وہ ہیں یا انکا کوئی ذیلی گروپ ہے ۔

جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ ہمارے ملک میں مذہبی مقامات بھی محفوظ نہیں ہیں تنقیدکا وقت نہیں بلکہ افہام و تفہیم سے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کا وقت ہے۔ فاٹا کے علاقہ کو اس پالیسی میں نظر انداز کیا ہے فاٹا میں بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں دہشتگردی کی جنگ میں سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا ہے جب تک نیٹو فورسز افغانستان میں ہونگی پاکستان میں امن نہیں آ سکتا۔

طالبان سے مذاکرات کیلئے جماعت اسلامی پر خلوص کوشش کر رہی ہے حکومت کی طرف سے صبر کے مظاہرے کو سراہتے ہیں اگر مذاکرات کے عمل میں فوج شامل ہو جائے تو کوئی بری بات نہیں پختونخواملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پاکستان چلنے یا جلنے کے دوراہے پر ہے اور ایوان سنجیدہ نہیں ہے حالات بہت خراب ہیں صد ر کو کہیں مشترکہ اجلاس بلائیں اور اس پر دس روز تک بحث ہو مشرف کیس میں میڈیا پارلیمنٹ کا مذاق اراتا ہے آئین وزیراعظم کو حق دیتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کا COAS لگائے وہ شخص عدالت نہیں آتا اور ہم آئین کے محافظ یہاں گپ شپ میں مصروف ہیں ایک آمر نے ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی اور دس گیارہ سال تک حکمرانی کی اور آئین کو 4/5 صفحے کہا اور کہا کہ اسکی کوئی حیثیت نہیں ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ اگر کسی نے آئین توڑا تو ہم پورے ملک کو سراپا احتجاج بنا دیں گے ہمیں سیاست کو سنجیدگی سے عبادت سمجھ کر کرنا ہو گا ہم ماضی کو بھول کر سب کو ان کا حق دیں اور طاقت کا مرکزی پارلیمنٹ کو بنائیں پھر نہ کوئی دہشتگردی ہو گی نہ مسئلہ ہو گا ۔

اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ ایف ایٹ کا واقعہ ہوا تو ہماری سیکیورٹی ایجنسی اور ادارے کہاں تھے اس واقعہ کی تفصیل وزیراعلیٰ بتائیں حکومت جو کچھ کر رہی ہے اسے سراہتے ہیں ہماری حکومت میں ہمارے لوگ مر رہے تھے اور پی پی حکومت صرف مذمت کرتی تھی حکومت کے مذاکرات کے بعد طالبان نے ایک ماہ کی جنگ بندی(سیز فائر) کیا ہے کل جو حکمران تھے انہوں نے کچھ نہیں کیا آج آپریشن آپریشن کر رہے ہیں ہم نے پاکستان اور آئین کے بقا کی جنگ لڑی اور ایجنسیوں نے ہمیں پیچھے چھوڑ دیا ہم صوبہ کی پہلی یا دوسری نمبر کی پارٹی ہیں ہماری ایجنسیوں نے انجینئرڈ الیکشن کے ذریعے ہمیں پس پشت ڈال یا ہے۔

ہم پنجاب کی بالادستی مانتے ہیں بڑے بھائی کا احترام کرتے ہیں مگر ہمیں بھی عزت اور اپنا مقام چاہئے۔ ہمیں ایجنٹ کہا جاتا ہے اگر ہم ایجنٹ ہیں تو گولی مار دیں ۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبد الستار بچانی نے کہا کہ ہمارے فوجی ، جج، طلبہ اور دوسرے لوگ شہید ہو رہے اور ہم صرف سیکیورٹی پالیسی بنا رہے ہیں ہماری مذاکراتی کمیٹی اکوڑہ خٹک گئی ہے انکے سربراہ کل سعودی عرب سے آئے ہیں یہ گیم کیا ہو رہی ہے ہم نواز شریف کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں مگر انکے لوگ انہیں مضبوط نہیں کر رہے ان میں ہی طالبان بیٹھے ہیں وہ صرف پنجاب کو بچانا چاہتے ہیں باقی صوبے بے شک مریں ہم فوج کو برا نہیں کہتے مگر ملک کے سسٹم کو تباہ کرنے میں سکندر مرزا، ضیاء الحق ، مشرف اور باقی ڈکٹیٹروں کا ہاتھ ہے یہ حکومت ایک سیشن جج کو نہیں بچا سکی ملک کو کیا بچائے گی۔

معین وٹو نے کہا کہ وزیر داخلہ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اسلام آباد بھی محفوظ ہے اور ملک بھی محفوظ ہے دہشتگردی کے واقعات بڑے عرصے سے ہو رہے ہیں کسی واقعہ پر طعنہ زنی نہ کی جائے ہم سب کو سات لے کر ملک کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں اس لئے مشاورت کیلئے سیکیورٹی پالیسی ایوان میں بحث کیلئے لائے ہیں میڈیا حکومت اور اپوزیشن کی بنائی ہوئی پالیسی کو سراہے اور عوام کے اندر ہمت حوصلہ پیدا کرنے کیلئے پرگرام کرے نہ کہ تنقیدی کریں۔

ایم کیو ایم کے نبیل کبول نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہاؤس نیشنل سیکیورٹی پر بحث کر رہا ہے اور ہماری سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ ہاؤس میں 12 ممبران بیٹھے ہیں ایک وفاقی وزیر اور دو MOS ہیں حکومتی ممبران بھی نہیں ہیں میں کورم پوائنٹ آؤٹ نہیں کر رہا آپ اجلاس ملتوی کر دیں اور کل سنجیدگی سے اس ایشو پر بات کریں۔جماعت اسلامی کی عائشہ سید نے کہا کہ ملک حساس دور سے گزر رہا ہے اور ہم پوائنٹ سکورنگ میں لگے ہیں۔

سیکیورٹی پالیسی پر بحث ہو رہی ہے اور لگتا ہے کہ ممبران نے یہ پالیسی پڑھی ہی نہیں ہے ممبران پالیسی پڑھ کر آئیں اور کل اپنے رائے میں بہت مدت بعد ایک ٹھوس پالیسی سامنے آئی ہے ۔ پاکستان کے رازوں کو راز رکھا جائے اس پالیسی میں اسلامی انداز کو نظر انداز کیا گیا ہے ایسی پالیسی ایک اسلامی ملک کی نہیں ہو سکتی ۔ تعلیمی اداروں کی اصلاح کی ضرورت ہے وفاقی المدارس بھی اس کیلئے تیار ہے مسجدوں کیلئے قوانین موجود ہیں مگر عمل کی کمی ہے مساجد کو پوائنٹ آؤٹ نہ کیا جائے منافرت نہ پھیلائی جائے فرقہ واریت کا مسئلہ مصلحت سے حل کیا جائے کراچی میں شعیہ اور سنی ایک جیسی گولی سے مارے گئے ہیں انٹیلی جنس ایجنسیز کی انٹیلی جنس شیئرنگ اچھی بات ہے مگر ملکی راز ،راز ہی رہیں تو بہتر ہیں۔

اجلاس مزید کارروائی کیلئے جمعرات کی شام ساڑھے چار بجے تک ملتوی کر دی گی۔