پاکستان خطے میں کسی ملک کی بالا دستی قبول نہیں کریگا ،چار نکاتی واضح خارجہ پالیسی تشکیل دے رہے ہیں ،سرتاج عزیز،پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے بارے امریکی دباؤ پر پیچھے ہٹنے کا تاثر درست نہیں، منصوبہ حکومتی ترجیحات میں شامل ہے،ایران پر امریکی پابندیوں کی نرمی کے بعد اس منصوبے کو آگے بڑھایا جائیگا،وزیراعظم نوازشریف جلد ایران کا دورہ کرینگے، مشیر خارجہ کا قومی اسمبلی میں بیان

منگل 4 مارچ 2014 22:23

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔4مارچ۔2014ء) وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان خطے میں کسی بھی ملک کی بالا دستی قبول نہیں کرے گا ہم چار نکاتی واضح خارجہ پالیسی تشکیل دینے جا رہے ہیں جس کے بنیادی نکات میں د وسرے ممالک کے معاملات میں عدم مداخلت اور اپنے داخلی معاملات میں کسی دوسرے ملک کی مداخلت برداشت نہ کرنے، اقتصادی ترقی، جغرافیائی محل وقوع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور داخلی حالات بہتر بنانا شامل ہیں، پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے بارے میں امریکی دباؤ پر پیچھے ہٹنے کا تاثر درست نہیں، پاک ایران گیس منصوبہ ابھی تک حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔

ایران پر امریکی پابندیوں کی نرمی کے بعد اس منصوبے کو آگے بڑھایا جائے گا، ایرانی صدر کی دعوت پر وزیراعظم نوازشریف جلد ایران کا سرکاری دورہ کرینگے، منگل کو قومی اسمبلی میں خارجہ پالیسی پر ہونے والی بحث سمیٹتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ حکومت خارجہ پالیسی پر پارلیمنٹ کی رہنمائی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے اس معزز ایوان کے اراکین نے اس بحث کے دوران پاکستان کو درپیش مسائل کی درست نشاندہی کی ہے۔

(جاری ہے)

فلسطین کا مسئلہ، افغانستان میں روسی جارحیت، نائن الیون کے واقعہ یا سابق ادوار میں اپنی پالیسیوں کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، ان مسائل کو حل کر کے ہی درست سمت جایا جا سکتا ہے، مشیرخارجہ امور نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی قومی سلامتی کمیٹی کی تشکیل نو کی، چند ماہ میں قومی سلامتی کمیٹی نے افغانستان سے تعلقات کا جائزہ لیا، اب افغانستان سے ہمارے تعلقات اس پالیسی کی وجہ سے بہتر ہوئے ہیں، عدم اعتماد کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، پاکستان افغانستان کے دو طرفہ تعلقات بہت بہتر ہو رہے ہیں، بھارت سے بہتر پالیسی کے حوالے سے پیش رفت ہوئی۔

جامع مذاکرات پر بات چیت جاری ہے، امریکہ سے سٹرٹیجک تعلقات پر بات چیت ہو رہی ہے۔ ہم نے واضح کیا کہ امریکہ کی گزشتہ پالیسیوں میں پاکستان کے سیکورٹی خدشات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا اب ہم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس پر توجہ دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ انرجی اور دیگر شعبوں میں جس طرح سرمایہ کاری کی بات ہو رہی ہے یہ ایک اہم سنگ میل ہے 30 سے 32 ارب ڈالر اگر آئندہ پانچ سے سات سال میں پاکستان میں چین کی طرف سے سرمایہ کاری آ جاتی ہے تو یہ ایک اہم اقدام ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے سے 2014ء میں برآمدات میں اضافہ اور بیرونی سرمایہ کاری آئے گی۔ وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی پر کام ہو رہا ہے یہ آئندہ چند ہفتوں میں پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی، جو پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ان میں موجودہ صورتحال کو سامنے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ افغانستان میں غیر ملکی فورسز آئندہ سال واپس جا رہی ہیں اور یہاں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔

ہم ان میں مداخلت کے بغیر جس حد تک ممکن ہو سکا افغانستان کو تعاون فراہم کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں جب وہ ہو جائیں تو بھارت سے تعلقات کی سمت کا تعین ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ سیکورٹی کے حوالے سے پیچیدہ صورتحال ہے، اہم قومی مقاصد کے حصول اور دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے کیلئے مربوط کاوشوں کی ضرورت ہے، قومی سلامتی پالیسی ہماری اولین ترجیح ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا پہلا بنیادی اصول اپنے ملک کی سلامتی اور بہتری ہے، ہم کسی دوسرے ملک میں مداخلت نہ کرنے اور اپنے معاملات میں مداخلت برداشت نہ کرنے کی پالیسی لا رہے ہیں، حکومت کی خارجہ پالیسی کا دوسرا بنیادی نکتہ پاکستان کی معاشی و اقتصادی ترقی ہو گا، کم سے کم بیرونی انحصار اور ایڈ کی بجائے ٹریڈ کی پالیسی پر عمل پیرا ہونگے۔

چین کی طرز پر ہم نے کام کرنا ہے اس کے بغیر غربت، بیروزگاری اور پسماندگی کا خاتمہ ممکن نہیں، ہم نے اپنے جغرافیائی محل وقوع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔حکومت چین اوروسطی ایشیاء کو ملانے کیلئے کوریڈور پرکام کررہی ہے جس سے پورے خطے میں تبدیلی آئے گی۔ ہماری خارجہ پالیسی کا چوتھا بنیادی نکتہ داخلی حالات بہتر بنانے، قانون کی بالادستی، جمہوری نظام کے استحکام، پاکستان کے تمام علاقوں کو مساوی ترقی اور اقلیتوں کا تحفظ ہے، ان اقدامات سے دنیا میں ہماری تنہائی ختم اور معاشی بہتری آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ نئی پالیسی کی وجہ سے تبدیلی پوری قوم کو نظر آئے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ شام کو ہتھیار فراہم کرنے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارت سے اقتصادی، تجارتی تعلقات میں پاکستان کے مفادات کو مدنظر رکھا جا رہا ہے، ایران کے ساتھ تعلقات کی یہاں بات کی گئی تو گزشتہ دنوں دونوں ممالک کے مشترکہ سرحدی کمیشن کا اجلاس ہوا، صدر روحانی کی دعوت پر وزیراعظم پاکستان جلد ایران کا سرکاری دورہ کرینگے، ایران۔

پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ اب بھی ہماری اولین ترجیح ہے۔ یہ تاثر درست نہیں کہ امریکہ کے دباؤ میں آ کر اس سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادیات کا طالب علم ہونے کے ناطے انہیں حیرت ضرور ہے کہ گزشتہ حکومت نے اپنے آخری دو ماہ میں یہ معاہدہ کیا، ایران پر عائد پابندیاں دو ملکوں کے درمیان معاہدے میں حائل نہیں ہوتیں۔ اب ایران کی امریکا سے بات چیت چل رہی ہے اور ایران کو یہ کہنے جا رہے ہیں کہ پابندیوں میں نرمی آنے پر اس منصوبے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔

قبل ازیں جاری بحث میں حصہ لیٹے ہوئے عمران ظفر لغاری نے خارجہ پالیسی پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سعودی عرب سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ رہنا ہے اس لئے ہمسایہ ممالک سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرنے ہونگے اور انہی اصولوں کی بنیاد پر ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھنی ہو گی۔ حاجی غلام احمد بلور نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے چاہئیں اور جیو اور جینے دو کی بنیاد پر خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھنی چا ہئے۔

جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ داخلہ اور خارجہ پالیسیاں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ ماضی کی پالیسیوں کی وجہ سے ہمارے ہمسایہ ممالک ناراض ہیں۔ بیرونی دنیا کے ساتھ تمام معاہدے ایوان میں پیش کئے جائیں۔ تحریک انصاف کی رکن عائشہ گلالئی نے کہا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے حوالے سے کوئی موثر تیاری نظر نہیں آ رہی۔

خط میں امن اور استحکام کی خاطر موثر خارجہ پالیسی کا ہونا اشد ضروری ہے۔ یورپی یونین کی طرز پر ہمارے خطہ کے ممالک پر مشتمل اقتصادی زون بنایا جائے۔پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے کہا کہ خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ داخلی معاملات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدے پر خاموشی معنی خیز ہے۔ خارجہ پالیسی کا درست سمت میں تعین اشد ضروری ہے حکومت اس حوالے سے مناسب اور فوری اقدامات کو یقینی بنائے۔