سینیٹ اجلاس ،کچہری پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت ، شہداء کیلئے فاتحہ خوانی ، اپوزیشن اراکین کی وزیر داخلہ پر شدید تنقید ، ایوان میں بلانے پر بھی نہ آنے کیخلاف واک آؤٹ ، چیئرمین سینیٹ نے حکومت سے (کل)دہشت گرد حملے ،غفلت کے مرتکب ذمہ داران اور ان کیخلاف کارروائی بارے رپورٹ طلب کرلی،وزیر داخلہ کو نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا مسودہ سینیٹ میں بھی پیش کرنے کی ہدایت ،جج ،سینئر وکلاء اور بیگناہ شہریوں کی ہلاکتوں کے سوگ میں اجلاس کی کارروائی ملتوی کردی گئی، آج کا واقعہ عدلیہ پر حملہ ہے ،اب ججوں کو خوف ہوگا اگر وہ انصاف دینگے تو نشانہ بنائے جائینگے، سینیٹر سعید غنی ،حکومت کی اپنی کوئی پالیسی نہیں ، اسلام آباد خطرناک بن چکا ہے مگر وزیر داخلہ نے اس کی تردید کی ،آج وزارت داخلہ والے سچ ثابت ہوئے اور وزیر داخلہ غلط ،سینیٹر زاہد خان

پیر 3 مارچ 2014 22:00

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔3مارچ۔2014ء) سینیٹ اجلاس میں اسلام آباد کچہری پر دہشت گردوں کے حملہ کی شدید مذمت ، شہداء کے لےئے فاتحہ خوانی ، اپوزیشن اراکین کی وزیر داخلہ پر شدید تنقید ، ایوان میں بلانے پر بھی نہ آنے کیخلاف واک آؤٹ ، چیئرمین سینٹ نے حکومت سے (کل)منگل کو اسلام آباد کچہری پر دہشت گرد حملے ،غفلت کے مرتکب ذمہ داران اور ان کیخلاف کارروائی بارے رپورٹ طلب کرلی ،وزیر داخلہ کو نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا مسودہ سینٹ میں بھی پیش کرنے کی ہدایت ،اسلام آباد دہشت گردی کے واقعہ میں جج اور سینئر وکلاء اور بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کے سوگ میں اجلاس کی کارروائی ملتوی کردی۔

سینٹ کا اجلاس پیر کی شام پارلیمنٹ ہاؤس میں چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری کی زیر صدارت تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا ۔

(جاری ہے)

تلاوت کلام پاک کے بعد اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی تو سینیٹر بابر اعوان نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کچہری پر دہشت گردوں کا حملہ جج اور وکلاء کی ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے پہلے بھی اسلام آباد میں ایک شخص نے بارہ گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا اور آج بھی بارہ لوگ آئے اور بارہ لوگ مار کر چلے گئے۔

بابر اعوان نے چیئرمین سینٹ سے درخواست کی کہ حکومت سے دہشتگردی واقعہ ، اس کے ذمہ داران اور ذمہ داران کیخلاف حکومت ایکشن کی رپورٹ طلب کی جائے۔ قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ متعلقہ وزیر سے کہا ہے کہ وہ ایوان میں آکر واقعہ کی رپورٹ دیں ۔ سینیٹر سعید غنی نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج کا واقعہ عدلیہ پر حملہ ہے اور اب ججوں کو خوف ہوگا کہ اگر وہ انصاف دینگے تو نشانہ بنائے جائیں گے ۔

کل وزیر داخلہ نے فورسز سے کہا تھا کہ سرجیکل سٹرائیکس روک دی جائیں مگر فورسز کو اپنے دفاع کا حق ہے ۔انہوں نے کہا کہ فورسز ملک و قوم کے دفاع کیلئے ہوتی ہیں وزیرداخلہ کے بیان سے یہی مطلب نکلتا ہے کہ عوام کیڑے مکوڑے ہیں اور مرنے کیلئے ہوتے ہیں انہوں نے کہاکہ وزیر داخلہ کو تو یہ بھی پتا نہیں ہوگا سینٹ میں اپوزیشن کے چیف وہیپ اسلام شیخ کے گھر پر بھی حملہ ہوا ہے ۔

حکومت اس واقعہ سے طالبا ن کے اعلان لاتعلقی سے خوش ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ ان پر یقین کرتے ہیں کہ وہ درست کہتے ہیں ۔سعید غنی نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان نے غیر مشروط جنگ بندی نہیں کی ۔ تحریک طالبان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے ان کی تجاویز کا مثبت جواب دیا ہے ۔ حقیقتا جو تجاویز ہی طالبان کی شرائط تھیں ۔ سعید غنی نے کہا کہ ان کے علم میں ہے کہ حکومت طالبان کے قیدی رہا کر رہی ہے اور پاک فوج وزیرستان میں کچھ علاقے بھی خالی کرے گی ۔

حکومت اسلام آباد دہشتگردی واقعہ اور ذمہ داران کیخلاف کارروائی کی رپورٹ سینٹ میں پیش کرے ۔ سینیٹر زاہد خان نے اسلام آباد کچہری دہشتگردی واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی اپنی کوئی پالیسی نہیں ، حکومت ردعمل میں اقدامات کر رہی ہے وزارت داخلہ والوں نے کہا تھا کہ اسلام آباد خطرناک بن چکا ہے مگر وزیر داخلہ نے اس کی تردید کی آج وزارت داخلہ والے سچ ثابت ہوئے اور وزیر داخلہ غلط لہذا وزیر داخلہ کو مستعفی ہو جانا چاہیئے ۔

سینیٹر زاہد نے کہا کہ ایک سیاسی رہنما کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ امریکہ کی وجہ سے ہو رہا ہے تو وہ امریکہ سے لڑائی کرلیں ہماری عوام کو دہشتگردی کا نشانہ بنا رہے ہیں انہوں نے کہاکہ کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے مرکزی کیمپ پنجاب میں ہیں جب تک افغانستا ن کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی پالیسی نہیں بدلے گی پاکستان میں امن نہیں ہوگا۔ سینیٹر حاجی عدیل نے کہاکہ طالبان نے واقعہ سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ ایف سی جوانوں کا قتل ہوا تو سرجیکل سٹرائیکس کرکے کارروائی کی گئی ۔

وزیر داخلہ بتائیں اسلام آباد کچہری دہشتگردی واقعہ کے بعد کس کیخلاف کارروائی ہوگی ۔طالبان حکومت کو بیوقوف بنا رہے ہیں جنگ بندی کا کہہ کر دہشتگردی کر رہے ہیں حکومت بھی ایسا ہی کرے وگرنہ طالبان حکومت کو بیوقوف بناتے رہیں گے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ عدلیہ کسی ملک کا سب سے اہم ادارہ ہوتا ہے جس کسی ملک کو تباہ کرنا مقصود ہوتا ہے تو اس کی عدلیہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے آج کے واقعہ سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ کارروائی کا اختیار طالبان کے پاس ہے اور حکومت کے پاس صرف ردعمل کرنا رہ گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اسلام آباد کچہری دہشتگردی واقعہ کے ردعمل میں بھی ایسی ہی کارروائی کی جانی چاہئیے جیسے ایف سی اہلکاروں کے قتل پر کی گئی تھی۔ سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ سب کو معلوم ہے خودکش حملہ آور کہاں بن رہے ہیں اور کہاں سے آتے ہیں اور کس کی نگرانی میں کام کرتے ہیں ۔ انہوں نے یہ بتایا جائے کہ ریاست کیا کر رہی ہے ، ریاست کہاں ہے اور اس کا کردار کیا ہے ؟ جو قوانین بنائے جا رہے ہیں اس پر عملدرآمد کون کریگا ججوں پر حملے ہونگے تو ان دہشتگردی مقدمات کون سنے گا؟ حکومت بتائے مذاکرات امن کیلئے ہو رہے ہیں تو امن کیوں نہیں ہو رہا ۔

دہشت گردی کو حکومت لعنت سمجھتی ہے بھی یا نہیں۔ حکومت بتائے افغان پالیسی درست تھی یا غلط تھی ۔ جن تنظیموں سے مذاکرات ہو رہے ہیں یہ کالعدم ہیں یا نہیں اور ان سے مذاکرات کون کر رہا ہے ۔ سینیٹر حمد اللہ نے ایوان میں اسلام آباد کچہری واقعہ کے شہدا ء کے لئے فاتحہ خوانی کروائی ۔ نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر حمد اللہ نے کہا کہ اسلام آباد کچہری کا واقعہ قابل مذمت ہے حکومت کو اس پر سینٹ کو جواب دینا چاہئے کہ ذمہ داران کون ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ حکومت نے قومی اسمبلی میں قومی سلامتی پالیسی پیش کی ہے جس میں ایک حصہ خفیہ اور دو حصے اوپن ہے ۔خفیہ حصہ ہی حکومت کی اصل پالیسی ہے اور اگر حکومت اپنی پالیسی ہے خفیہ رکھے گی تو پارلیمنٹرینز اس کے مثبت یا منفی پہلوؤں پر کیا رائے دے سکتے ہیں ۔ بارہ سال سے اس ملک میں خون خرابہ دیکھ رہے ہیں چاروں صوبوں کے دارلخلافہ غیر محفوظ ہیں ۔

پاکستان کے پاس سب سے زیادہ 26انٹیلی جنس ادارے ہیں مگر جہاں بھی دہشتگردی ہو رہی ہے بتایا یہ جا رہا ہے کہ نامعلوم افراد کا کام ہے حکومت نہ تو نامعلوم کا پتہ لگا پا رہی ہے نہ ہی ہمیں تحفظ دیا جا رہاہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی سلامتی پالیسی جھوٹ پر مبنی ہے ، ایک تنظیم کالعدم قرار دی جاتی ہے تو وہی قیادت نئے نام سے سرگرمی شروع کردیتی ہ اور ہم ان سے مذاکرات کرنے لگتے ہیں جبکہ وہ دعوی کر رہے ہوتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں انہوں نے ہزاروں قتل کئے ۔

سینیٹر حمد اللہ نے کہا کہ نہ اسامہ مدرسہ سے پکڑا گیا نہ شکیل آفریدی اور عافیہ صدیقی مدارس کے پڑھے ہوئے تھے۔ لال مسجد کے امام کو بھی ریاست تنخواہ دیتی ہے۔ ریاست چلانے والے اداروں میں تضاد ہے ۔ عدالت ،مسجد ، سکول ، امام بارگاہوں پر حملوں کو جہاد نہیں فساد سمجھتے ہیں ، اتنے انٹیلی جنس ادارے ہیں مگر کوئی دہشتگرد نہیں پکڑا جاتا ، حکومت بتائے دہشتگردی ریاست کروا رہی ہے یا دہشتگردوں کی سرپرستی کر رہی ہے، ریاستی انٹیلی جنس اداروں کے حوالے سے چند دن پہلے خبر چھپی کہ اسلام آباد میں خواتین خودکش بمبار موجود ہیں ۔

اگر انڈیا کی پارلیمنٹ پر حملہ ہو سکتا ہے تو پاکستان کی پارلیمنٹ پر کیوں نہیں۔ آج بھی اسلام آباد کچہری میں تین ویگو گاڑیوں میں لوگ آئے فائرنگ کی بم پھینکے جج اور وکیل جان بچانے کیلئے بھاگتے رہے ۔ انہوں نے کہاکہ انٹیلی جنس اداروں کو خبر نہیں ہوئی ۔ انہوں نے کہاکہ محسوس ہوتا ہے پاکستان میں اپنی انٹیلی جنس ایجیسز سے زیادہ غیر ملکی ایجنسیاں زیادہ مضبوط ہیں ۔

بینظیر بھٹو ، بشیر بلور کو شہید کیا گیا ، اسفند یار ، فضل الرحمان پر خود کش حملے ہوئے ، جی ایچ کیو تک محفوظ نہیں صرف پاکستان میں اب قبرستان محفوظ رہ گئے ہیں ۔ سینیٹر طاہر مشہدی نے کہاکہ ریاست کی رٹ کو بچانے کیلئے حکومت سنجیدہ نہیں وہ ریاستیں تاریخ میں تباہ ہو جاتی ہیں جن کے حکمران ریاست کو رٹ کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے انہوں نے کہاکہ وحشی باغیوں سے جنگ بندی یا مذاکرات نہیں کئے جاتے جو سرکاٹ کر فٹ بال کھیلتے ہوں ، بچیوں کو سٹرکوں پر لٹا کر کوڑے مارکر خود کو بہادر سمجھتے ہوں انہوں نے کہا کہ حکومت دہشتگردوں سے ایسے لاڈ پیار دکھا رہی ہے اور بہادر افواج کو ان کے خلاف کارروائی کرنے سے روکتی ہے۔

حکومت نے فوج کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں اور دہشت گرد ججوں ، جرنیلوں اور غریب عوام کو مار رہے ہیں وزیر اعظم کے بیٹے کو اغواء کر لیا جاتا ہے اور حکومت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے مذاکرات کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر دہشتگردی تیسری قوت کر رہی ہے تو حکومت طالبان کے خلاف آپریشن کرے اور تیسری قوت سے مذاکرات کرلے ۔ اگر حکومت نے فوج کو دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کا اختیار نہ دیا تو قوم کبھی معاف نہیں کریگی ۔

سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ اسلام آباد کچہری پر دہشت گرد حملہ پاکستان کیلئے سوالیہ نشان ہے لگ رہا ہے کہ سیز فائر کو سیاسی سلوگن کی صورت زندہ رکھنے کیلئے روزانہ عوام کا خون بہایا جا رہاہے ۔ اسلام آباد کے محفوط ہونے بارے وزیر داخلہ کے بیان کی قلعی کھل گئی ہے اسلام محفوظ نہیں ، دہشتگردی کے عوام نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں سلمان تاثیر کے قاتلوں پر مقدمہ نہیں چل سکتا مگر حکومت دہشتگردوں سے سیز فائر اور مذاکرات کررہی ہے ۔

دہشت گردوں کو کون تلاش کریگا انہوں نے کہاکہ اتنی پاکستان کی کسی جنگ میں شہادتیں نہیں ہوئیں جتنے بے گناہ پاکستانیوں کو دہشتگردوں نے مار دیا ۔ ہم دہشتگردوں کیخلاف کارروائی چاہتے ہیں۔ سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ ایک ہفتہ پہلے سینٹ کمیٹی میں وزار ت داخلہ کے ڈی جی طارق لودھی نے بریفنگ دی تھی کہ پاکستان اور اسلام آباد کو دہشتگرد تنظیموں سے خطرہ ہے اگلے دن ان کے باس وزیر داخلہ نے بیان دیا کہ اسلام آباد محفوظ ہے چڑی بھی نہیں پھڑک سکتی ۔

آج اسلام آباد کچہری میں چالیس منٹ تک دہشتگرد ی ہوتی رہی جج کو قتل کیا گیا ۔ یہ صومالیہ کا دارلخلافہ موغادیشو ہے یا پاکستان کا دارلخلافہ اسلام آباد ہے ۔ عوام پریشان ہیں ، کاروباری طبقے بے یقینی سے کہہ رہے ہیں کہ حکومت پاکستان کو کہاں لے جارہی ہے حکومت کو اپنی سیکیورٹی پالیسی سینٹ میں بھی پیش کرنی چاہئے پاکستان اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے ریاست ، جمہوری نظام اور جمہوری حکومت کو خطرہ ہے ۔

سینیٹر کاظم خان نے کہا کہ معاہدے مذہب معاشروں میں ہوتے ہیں درندوں سے کوئی معاہدہ نہیں کرتا اور نہ ان معاہدوں سے فرق پڑتا ہے حکومت احمقوں کی جنت میں رہتی ہے جو دہشتگرد کارروائی کرکے اس سے لاتعلقی کا اعلان کر دیتے ہیں ان پر کیا اعتبار کہ معاہدہ کر کے اس سے بھی لا تعلقی ظاہر کردیں ۔ حکو مت عقل کے ناخن لے ایسا لائحہ عمل بنائے جس سے ادارے محفوظ ہوں۔

سینٹر سردار علی نے کہا کہ اسلام آباد دہشتگردی کے بعد کوئی بھی حکومتی نمائندہ جائے وقوعہ یا میڈیا پر ردعمل دیتا دکھائی نہیں دیا ۔ اسلام آباد میں کوئی ذمہ دار دکھائی نہیں دیتا اور جو ذمہ دار ہے وہ سینٹ میں آنے کو اپنی بے عزتی سمجھتا ہے ۔سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ قائد ایوان نے وزیر داخلہ کے ایوان میں آکر رپورٹ پیش کرنیکا عندیہ دیا تھا مگر وہ نہیں آئے اس لئے اپوزیشن اجلاس کی کارروائی کا احتجاجا بائیکاٹ کرتی ہے ۔

اپوزیشن کے ایوان سے باہر نے کے بعد چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری نے قائد ایوان راجہ ظفر الحق سے کہا کہ حکومت سے کہا گیا تھا کہ قومی سلامتی پالیسی کو سینٹ میں بھی پیش کیا جائے اس حوالے سے وزیر داخلہ سے کہا جائے ۔ چیئرمین سینٹ نے وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان کو ہدایت کی کہ کل اجلاس میں اسلام آباد واقعہ ، غفلت برتنے والوں اور حکومت کی غفلت برتنے والوں کیخلاف کارروائی کی مکمل رپورٹ پیش کی جائے ۔

قائد ایوان نے ایوان میں پیر کو پرائیویٹ ممبر ڈے کی کارروائی نہ سکنے پر منگل کو پرائیویٹ ممبر ڈے ایجنڈا پر کارروائی کی تحریک پیش کی جسے ایوان نے منظور کر لیا ۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ اسلام آباد کچہری دہشت گردی واقعہ میں ایڈیشنل سیشن جج اور سینئر وکلا ء جاں بحق ہوئے ہیں متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لئے سینٹ کا اجلاس کی کارروائی منگل صبح دس بجے تک ملتوی کی جاتی ہے۔