پاکستان میں 54فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ‘ وزیر خزانہ ،آگے بڑھنا ہے تو ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا،تمام ٹیکس ادا کرنیوالوں کی ڈائریکٹری شائع کی جائیگی ،اس کام کا آغاز اپنے آپ سے کیا ، اگلے دو ڈھائی ماہ میں تمام ٹیکس گزاروں کی ڈائریکٹری شائع کر دی جائیگی، وفاقی وزیر خزانہ ۔ اپ ڈیٹ

جمعرات 27 فروری 2014 20:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26 فروری ۔2014ء) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا ہے کہ ملک کے تمام ٹیکس ادا کرنیوالوں کی ڈائریکٹری شائع کی جائیگی ہم نے اس کام کا آغاز اپنے آپ سے کیا ہے اگلے دو ڈھائی ماہ میں تمام ٹیکس گزاروں کی ڈائریکٹری شائع کر دی جائیگی،پاکستان میں 54 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا۔

جمعرات کو قومی اسمبلی میں بیان اور سوالات کے جوابات دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ قابل احترام ہیں ہم نے وعدہ کیا تھا کہ 31 جنوری تک ان ارکان کو نیشنل ٹیکس نمبر جاری کردینگے ،6 جنوری تک 1172 ارکان میں سے 512 ارکان نے ٹیکس ریٹرن جمع کروائی تھیں ان ارکان کو موقع دیا گیا کیونکہ ان کیخلاف باتیں ہو رہی تھیں 31 جنوری تک ان سب کو این ٹی این الاٹا کردیا گیا ہے صرف 8 ارکان قومی اسمبلی رہ گئے ہیں ، چالیس ایم پی اے ہیں جن کے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں ہوئے 15 فروری کو ٹیکس ڈائریکٹری ویب سائٹ پر جاری کر دی گئی تھی 1120 ارکان نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروائی ہیں جن کو ویب سائٹ پر جاری کیا جائیگا ، پاکستان چوتھا ملک ہے جس نے ٹیکس ڈائریکٹری شائع کی ہے تمام ارکان اپنے ٹیکس کی تفصیلات چیک کرلیں کل رات تک اس کو مکمل کرنے کی کوشش کرینگے ہم نے شفافیت کا آغاز کر دیا ہے اب ملک کے تمام ٹیکس ادا کرنے والوں کی ڈائریکٹری شائع کی جائیگی ہم نے آغاز اپنے آپ سے کیا ہے اور اگلے دو ڈھائی ماہ میں تمام ٹیکس گزاروں کی ڈائریکٹری شائع کر دی جائیگی۔

(جاری ہے)

سپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن کے حوالے سے ارکان کو آگاہی کا مسئلہ تھا فاٹا کے ارکان کواس کا پتہ نہیں تھا وہ سمجھتے تھے کہ فاٹا پر ٹیکس لاگو نہیں ہے جب انہیں بتایا کہ وہ اب تنخواہ لیتے ہیں اور ٹیکس ریٹرن ضروری ہے تو وہ بات سمجھ گئے انہوں نے کہا کہ دو ارکان ملک سے باہر ہیں ایک ہسپتال میں داخل ہیں ہماری کوشش ہے کہ تمام ارکان کے ٹیکس ریٹرن فائل ہو جائیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ڈاکٹر عارف علوی کا مسئلہ پارٹنر شپ ہے ان کی تفصیلات بھی چھاپ دی جائینگی۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ وزیر خزانہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اس ملک کا مسئلہ یہی ہے کہ یہاں کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتا، یہاں پر ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا ارکان اسمبلی سے اس کا آغاز بہتر اقدام ہے ، ٹیکس چوری قتل سے بڑا جرم ہے ، ٹیکس چوری کی سزا موت ہونی چاہئے میرے متعلق بھی لکھا گیا کہ میں نے ٹیکس نہیں دیا اس نظام پر تنقید سے گریز کرنا چاہئے ، با اثر طبقے اس حوالے سے زیادتی کرتے ہیں اس اقدام سے پاکستان اور پارلیمنٹرینز سروخرو ہونگے اس نظام کو بغیر کسی دباؤ کے آگے جاری رہنا چاہیے ۔

قومی اسمبلی میں سوالات کے جواب میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ غیر ملکی میڈیا اور حکام پاکستانی پارلیمنٹرینز کو ٹیکس چور سمجھتے ہیں۔ 6 جنوری تک صرف 312 ممبران تھے جو ٹیکس دے رہے تھے لیکن ہم نے کوشش کرکے 31 جنوری تک تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو این ٹی این نمبر دیدیا، اب قومی اسمبلی کے 8 اور صوبائی اسمبلیوں کے صرف 40 ارکان کی جانب سے ٹیکس ادائیگی نہیں کی گئی ان سے بھی رابطے کی کوشش کررہے ہیں۔

حکومت نے ٹیکس وصولی کے حوالے ڈکشنری شائع کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی اور جمعے تک یہ ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردی جائے گی۔اسحاق ڈار نے کہا کہ اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا، پچھلے 5 سال میں ٹیکسوں میں اضافہ کی شرح اوسط 3 فیصد تھی جسے گزشتہ 7 ماہ میں 17 فیصد پر لے آئے ہیں، زرعی ٹیکس 18 ویں ترمیم کے تحت نہیں بلکہ 1973 کے آئین کے تحت صوبوں کے پاس ہے، بعض اراکین پارلیمنٹ کی خواہش تھی کہ زرعی ٹیکس کو وفاق کے اختیار میں لانا چاہئے، 1998میں مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے زرعی ٹیکس کا مسودہ تیار کیا تھا جو چاروں صوبوں نے منظور کیا تھا مگر پنجاب اور سندھ میں اس سے حاصل ہونے والی رقم انتہائی کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 54 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، انکم سپورٹ لیوی کے پیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں آنا تھے مگر بعض لوگ اسے عدالت میں لے گئے۔وزیر کابینہ ڈویژن نے بتایا کہ پی آئی اے کے پاس اس وقت 34 جہاز ہیں ان میں سے 23 جہاز فعال 11 خراب ہیں، 11 جہاز گراؤنڈ کر دئیے گئے ہیں۔ وزیر ریلوے سعد رفیق کا کہنا تھا کہ کراچی سرکلر ریلویز کا منصوبہ ختم نہیں کیا، متاثرین کو جمعہ گوٹھ منتقل کیا جائے گا، بحالی کے اخراجات خود ہی برداشت کرنا ہوں گے۔

متعلقہ عنوان :