وزیر داخلہ چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں سلامتی پالیسی پیش کردی

بدھ 26 فروری 2014 12:58

وزیر داخلہ چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں سلامتی پالیسی پیش کردی

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 26فروری 2014ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں سلامتی پالیسی پیش کردی ہے، 3 حصوں پر مشتمل پالیسی کے تحت انٹلی جنس ایجنسیوں کے درمیان بہتر رابطے کے لئے مشترکہ ڈائریکٹوریٹ اور ریپڈ رسپانس فورس قائم کی جائے گی۔ قومی اسمبلی میں قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 13 برس سے ملک کو گھمبیر حالات سامنا ہے، ایسی صورتحال میں 4 حکومتیں آئیں لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔

موجودہ حکومت نے وزیر اعظم کی رہنمائی میں جس طرح معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ گزشتہ روز کابینہ میں منظور کی گئی والی سیکیورٹی پالیسی کو ایوان میں پیش کیا جائے تاکہ ایوان کا ایک ایک رکن اس مجوزہ پالیسی پر بات کرسکے۔

(جاری ہے)

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ پہلے مرحلے میں مذاکرات کا راستہ بنایا، پہلے علما کی کمیٹی بنائی گئی جس کے بارے میں سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز کو آگاہ کیا لیکن حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد یہ عمل ختم ہوگیا۔

جس کے بعد خفیہ مذاکرات شروع ہوئے جس کے بڑے فائدے تھے لیکن بنوں واقعے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب مذاکرات خفیہ نہیں ہوں گے، جس کے بعد ایک اور کمیٹی بنی جس نے 17 دن کام کیا، اسی دوران کراچی میں پولیس اہلکاروں اور مہمند ایجنسی کے 23 مغوی اہلکاروں کو قتل کیا گیا۔ مذاکراتی عمل کے دوران ہی تشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا تو وزیراعظم نے خود کہا کہ بس بہت ہوگیا۔

حکومت نے فیصلہ کیا کہ اگر پاکستان کے کسی بھی حصے میں دہشتگردی کی کارروائی ہوئی تو اس کا ردعمل ہم ان کے ہیڈ کوارٹر پر کریں گے۔ ہم نے اس بات پر زور دیا کہ کارروائی میں کوئی بے گناہ نہیں مرا اور مسلح افواج نے احکامات کے عین مطابق انٹلی جنس رپورٹس کے تحت دہشتگردوں کے ٹھکانوں اور گھروں میں ہوئے۔چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ دہشتگردی صرف پاکستان میں امن و عامہ کا مسئلہ نہیں، یہ ملک کے وجود اور مستقبل کا مسئلہ ہے، حکومت نیک نیتی سے سیاست کو ایک جانب رکھتے ہوئے اس پورے عمل کو آگے بڑھا رہے ہیں، لیکن انہیں اس بات پر افسوس ہوا کہ کچھ سیاسی جماعتیں اب کہہ رہی ہیں کہ انہیں اعتماد میں لیا ہی نہیں گیا، حالانکہ عمران خان کی منظوری کے بعد حکومت نے مذاکرات میں ان کا نمائندہ شامل کیا لیکن اس کے باوجود ان کی جانب سے الزامات لگائے جارہے ہیں کہ انہیں اعتماد میں لیا گیا تو یہ بہت غلط بات ہے۔

اس مسئلے کو اللہ کے کرم کے بعد سیاسی ہم آہنگی سے ہی حل ہونا ہے۔ ان کی التجا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور میڈیا ہمارا ساتھ دیں، میڈیا دوسرے فریق کو اتنی اہمیت نہ دے۔ صرف تنقید نہیں کریں بلکہ ہمیں راستہ بھی بتائیں، اگر حکومت کے اقدامات میں کوئی غلطی ہوئی تو ہم اس کی تصحیح کریں گے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان میں26 انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں، آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہےان کے درمیان بہتر رابطے قائم کرنے کے لئے نیکٹا کے جوائنٹ ڈائریکٹوریٹ میں تمام ایجنسیوں کی کوآرڈینشن ہوگی اور ایجنسیوں کی رپورٹس پر کارروائیاں کی جائیں گی، اس کے علاووہ رپڈ رسپانس فورس قائم کی جائے گی۔