فقیروالی ‘ انگریزوں کے دور کی جرنیلی سڑکوں پرقیمتی درخواستوں کی بے توقیری‘لکڑی ضائع ہونے لگی

پیر 24 فروری 2014 13:59

فقیروالی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 24فروری 2014ء) نہروں ،سڑکوں ،ریلوے لائینوں ،اور انگریزوں کے دور کی جرنیلی سڑکوں پر کھڑے وہ درخت جو کہ بارش آندھیوں اور نامساعد موسمی حالات سے گر چکے ہیں ،مدتوں سے وہیں پڑے دھول مٹی سے گل سڑ رہے ہیں اور سڑ چکے ہیں باقی ماندہ چور اچکے کاٹ کر لے جا رہے ہیں- خصوصی رپورٹ کے مطابق کچھ درخت ایسے بھی ہیں جن کی عمریں ڈیڑھ سو سال سے بھی تجاوز کر چکی ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی لکڑی کی کوالٹی ضائع ہو رہی ہے ان درختوں کی محکمہ جنگلات نے آدھی صدی گزرنے کے باوجود بھی اکھٹا کر کے نیلامی نہیں کرائی جس سے اربوں روپے کا یہ سرمایہ برباد ہو رہا ہے ۔

وہ درخت جو کہ سڑکوں کے کنارے مدتوں سے گرے پڑے ضائع ہو رہے ہیں ان کی طرف سے محکمہ عدم توجہی افسوس ناک ہی نہیں بلکہ مبینہ طور پر قومی املاک کو ضائع کرنے کے مترادف ہے ۔

(جاری ہے)

ماہرین کا کہنا ہے ان میں سے ایک ایک درخت لاکھ سے اوپر مالیت کا ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ان درختوں کی مالیت اربوں میں ہے ۔جو درخت اپنی طبعی عمر پوری کر چکے ہیں ان کی کٹائی کر کے ان کی جگہ نئے درخت لگانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

کیونکہ یہ ڈیڈھ سو سالہ درختوں کی لکڑی کی کوالٹی خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔ان گرے ہوئے درختوں کے اہم حصوں کو چور اچکے کاٹ کر لے جاتے ہیں کیونکہ محکمہ جنگلات میں تو محض درخت کا نمبر ہی چاہیے خواہ باقی درخت ہو یا نہ ہو ۔ضلع بھاولنگر کے جنوبی حصے میں سیم و تھور کے باعث بے شمار درخت سوکھ چکے ہیں اور ان کی جگہ بھی نئے درخت نہیں لگائے جا رہے یہ اس چولستانی علاقہ میں درجہ حرارت بڑھانے کا باعث ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان درختوں کو مربوط نظام کے تحت اکھٹا کر کے ان کی نیلامی کرا کے ملکی گرتے ہوئے معیشت کو سنبھالا دیا جائے تاکہ یہ قومی زرمبادلہ قوم کے کام آئے نہ کہ چور اچکے ہی کاٹ کر لے جائیں ۔