لگتا ہے حکومت اور فوج نے آپریشن کا فیصلہ کر لیا ہے،پروفیسرابراہیم، آپریشن سے لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہونگے اور ملک بھر میں دہشت گردی میں اضافہ ہوگا، ہم چاہتے ہیں کہ مذاکراتی عمل جاری رہے۔ ہم دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہیں،ہم اب بھی چاہتے ہیں مذاکرات ہوں اور امن قائم ہوجائے لیکن شاید حکومت اس کے لئے تیار نہیں،پشاورمیں میڈیا سے گفتگو

ہفتہ 22 فروری 2014 22:21

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22 فروری ۔2014ء) جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے امیر اورطالبان کی نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسرمحمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ لگتا ہے حکومت اور فوج نے آپریشن کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ آپریشن سے لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہونگے اور ملک بھر میں دہشت گردی میں اضافہ ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ مذاکراتی عمل جاری رہے۔

ہم دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہیں تاکہ معاملات کوخوش اسلوبی سے طے ہوں لیکن حکومت مسلسل سرد مہری کا مظاہر ہ کررہی ہے ۔ ہم طالبان نہیں اور نہ ہی اُن کا حصہ ہیں۔ طالبان پر پابندیاں ہیں اس لئے انہوں نے ہمیں مذاکرات کے لئے نامزد کیا ہے ۔ وزیر داخلہ نے فوج کو اختیار نہیں دیا فوج پہلے سے ہی بااختیار ہے۔

(جاری ہے)

فوجی کاروائی کے بعد وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس قوم سے مذاق اور حقائق سے چشم پوشی ہے ۔

سچ تویہ ہے کہ نہ حکومت بااختیار ہے اور نہ ہی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو اختیار ہے کہ وہ کسی سے ملاقات کرسکیں ۔سلالہ میں 2گھنٹے تک امریکی جنگی جہاز پاکستانی فوجی چوکی پر شیلنگ کرتے رہے لیکن اس وقت ہماری بری اور فضائی فوج حرکت میں کیوں نہیں آئی ۔ ہنگو کے علاقوں میں شیلنگ کی مذمت کرتے ہیں ۔ا ن خیالات کا اظہار انہوں نے المرکزاسلامی پشاور سے جاری کئے گئے بیان اور میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

پروفیسرمحمدابراہیم خان نے مزید کہاکہ کمیٹیوں کے مستقبل کا علم اللہ ہی کو ہے ۔ جنہوں نے کمیٹیاں بنائی ہیں وہی ان کو ختم کرنے کا اختیار رکھتے ہیں لیکن ابھی تک کسی نے ان کمیٹیوں کو ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا اس لئے کمیٹیاں تاحال قائم ہیں۔انہوں نے کہاکہ طالبان رہنما اعظم طارق سے رابط ہوا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ حکومت سے قرآن و سنت کی روشنی میں مذاکرات پر تیار ہیں ۔

ہم اب بھی چاہتے ہیں کہ مذاکرات ہوں اور امن قائم ہوجائے لیکن شاید حکومت اس کے لئے تیار نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کا یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہم نے قیدیوں کو نہیں مارا،بلکہ اگر وہ دوٹوک انداز میں اعلان کرے کہ قیدیوں کو ماورا ئے عدالت قتل نہیں کیا جائے گاتو جنگ بندی مشکل نہیں ۔ ٹل (ہنگو) میں ہونے والا واقعہ افسوناک ہے ۔ شیلنگ سے عام آبادی بھی متاثر ہوئی ہے۔

خواتین اور بچوں کے مارے جانے کی بھی اطلاعات ہیں جو سراسر ظلم ہے ۔ انہوں نے کہاکہ امریکہ طالبان میں شامل اپنے ایک شہری کی وجہ سے ڈرون حملہ کرنے سے یہ کہہ کر کترا رہا ہے کہ ہم اپنے شہری کا ماورائے عدالت قتل نہیں کرسکتے ۔لیکن وہی امریکہ پاکستانی شہریوں کے قتل عام میں مصروف ہے۔ہماری حکومت اور فوج اپنی سپاہ اور شہریوں کی حفاظت نہیں کرسکتی۔

چار سال سے32سیکورٹی اہلکار لاپتہ ہیں لیکن حکومت اور آرمی چیف کو اب ان کی یاد آرہی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم اب بھی چاہتے ہیں کہ مذاکرات ہوں لیکن حکومتی کمیٹی ایک واقعے کو بنیاد بناکر ملنے سے مسلسل انکاری ہے جس سے ان کی غیر سنجیدگی کا اندازہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر کچھ لوگوں کو آپریشن کا شوق ہے تووہ اپنا شوق پورا کرلیں لیکن آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے مزید خون بہے گا، لاکھوں افراد بے گھر اور نقل مکانی پر مجبور ہونگے اور دونوں طرف سے ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اتارے جائیں گے۔ لیکن مسئلہ پھر بھی مذاکرات سے ہی حل ہوگا۔انہوں نے کہاکہ ہم مایوس نہیں ہیں۔ انشاء اللہ ملک میں امن قائم ہوگااور عوام کو بہت جلد خوشخبری سنائیں گے۔

متعلقہ عنوان :