حکومت کسی مسلح گروہ یا لشکر کی سرپرستی نہیں کرے گی،شوکت یوسفزئی،سویلین کے ہاتھوں میں بندوق تھما کر ان سے قانون پر عمل درآمد اور امن کی امید رکھنانہ صرف غلط فہمی بلکہ مذاق ہے،بدامنی کے خاتمے کے لئے ہم اپنی فوج اور سیکیورٹی اداروں کو مضبوط کر رہے ہیں اور متعلقہ رولز کے مطابق تربیت یافتہ لوگوں کو ترجیح دے رہے ہیں،صوبائی وزیر

جمعہ 21 فروری 2014 20:33

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21 فروری ۔2014ء) خیبر پختونخواکے وزیر صحت شوکت علی یوسفزئی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کسی بھی مسلح گروہ یالشکر کی سرپرستی نہیں کرے گی۔سویلین کے ہاتھوں میں بندوق تھما کر ان سے قانون پر عمل درآمد اور امن کی امید رکھنانہ صرف غلط فہمی بلکہ مذاق ہے۔بدامنی کے خاتمے کے لئے ہم اپنی فوج اور سیکیورٹی اداروں کو مضبوط کر رہے ہیں اور متعلقہ رولز کے مطابق تربیت یافتہ لوگوں کو ترجیح دے رہے ہیں تاہم اگر کوئی بھی سویلین انسداد دہشت گردی فورس یا سیکیورٹی فورسزمیں شمولیت کاخواں ہے تو اسے ویلکم کریں گے مگر اسے متعلقہ قواعد و ضوابط کے مطابق آنا پڑے گا البتہ اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے الگ فورس بناکر امید رکھے کہ حکومت سرپرستی کرے گی یہ نا ممکن ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز پشاور میں بی بی سی کے نمائندوں سے امن لشکر اور دیگر گروہوں کی سرپرستی سے متعلق صوبائی حکومت کی پالیسی پر گفتگو کے دوران کیا۔ وزیر صحت شوکت علی یوسفزئی نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں کی اپنی کوئی پالیسی تھی ہی نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو حکومتوں نے اپنے سر تو لے لیاتھامگر کوئی واضح اور قابل عمل حکمت عملی نہ بناسکے۔

اگر کوئی تنظیم یا پالیسی بنائی بھی گئی تو اس کاکردار سامنے نہ آسکا۔انہوں نے کہاکہ اس وقت صوبے میں بہت سے ایسے گروہ ہیں جن کے اپنے ذاتی مقاصد ہیں حکومت کسی ایسے گروہ کی سرپرستی نہیں کرے گی اس کے پاس اپنی فوج اور ادارے ہیں جنہیں مضبوط کیاجارہا ہے اگر سویلین کو اسلحہ تھما دیاجائے تو حالات مزید خراب ہوں گے کیونکہ ا گر مقامی لوگ تعاون کریں تو دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

سویلین کے ہاتھوں میں بندوق تھمانے سے مزید تباہی آئے گی اور گلی گلی جنگ شروع ہو جائے گی یہ جس کاکام ہے اسی کو کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں نہ پولیس کو تربیت دی گئی اور نہ ہی ان کی تعداد پوری کی گئی جس کی وجہ سے آج مشکلات کا سامنا ہے۔انہوں نے واضح کیاکہ صوبائی حکومت کسی صورت میں بھی سول وار نہیں چاہتی اس لئے مسلح گروہوں کی سرپرستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

قبل ازیں افغان قونصلر جنرل نے وزیر صحت سے انکے گھر میں ملاقات کی اور انہیں ا فغان ڈاکٹروں کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا اور کہا کہ ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی ڈاکٹروں کو تنگ کر رہی ہے۔مزید برآں ٹیکس سے متعلق بھی مسائل کا سامنا ہے۔صوبائی وزیر نے کہا کہ ٹیکس کامسئلہ وفاقی حکومت کے پاس ہے صوبائی حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔تاہم ڈاکٹروں کو درپیش دیگر مسائل وہ حل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ وہ انسانیت کی بنیاد پر خیبر پختونخواکے ہر شہری کو سہولت دے رہے ہیں افغانستان ہمارا ہمسایہ اور مسلمان ملک ہے ان کو درپیش مشکلات کا ازالہ کیاجائے گا۔وزیر صحت نے افغان ڈاکٹروں کی پریکٹس سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس ویسے بھی ڈاکٹروں کی کمی ہے اگر کوئی افغان ڈاکٹر پی ایم ڈی سی کے رولز پر پورااترتا ہے تو اسے ضرور ویلکم کریں گے اور پریکٹس کے مواقع فراہم کریں گے۔

متعلقہ عنوان :