حلقہ بندیوں سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ

جمعہ 21 فروری 2014 12:26

حلقہ بندیوں سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیلوں پر فیصلہ ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 21فروری 2014ء) سپریم کورٹ نے حلقہ بندیوں سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ، چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا ہے کہ لوگوں کوحلقہ بندیوں پر اعتماد نہیں تو انتخابات کیسے شفاف ہوں گے ، کوئی ادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے تو عدالت کو مداخلت کا اختیار ہے۔

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے حلقہ بندیوں کے فیصلے کے خلاف سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کی اپیلوں کی سماعت کی۔اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کی حلقہ بندیوں کا اختیار صوبائی حکومت کا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ‬صوبائی حکومت کو مرضی کی حلقہ بندیوں کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔

(جاری ہے)

عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہا کہ جہاں قانون خاموش ہو وہاں الیکشن کمیشن آئینی مینڈیٹ کے تحت انتخابی عمل انجام دے سکتا ہے ۔

حلقہ بندیاں بھی انتخابی عمل کا حصہ ہیں۔ سندھ حکومت کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کا بنیادی مقصد صوبائی خود مختاری، مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صوبوں کو آئینی خودمختاری دیتے ہوئے یہ بھی مدنظر رکھا گیا تھا کہ وہ آئینی کمانڈ کی پابندی کرے گی،انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ لیکن قوانین صوبائی حکومت نے فراہم کرنے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے جس کی تشریح عدالت کا اختیار ہے۔ فارووق ایچ نائیک نے میثاق جمہوریت کی کاپی عدالت میں پیش کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میثاق جمہوریت کی شق 10 کے تحت بلدیاتی انتخابات صوبائی الیکشن کمیشن نے کروانا تھے ۔ سیاسی رہنماؤں نے 18ویں ترمیم میں مثبت قلابازی لگائی۔

ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کو دے دیا گیا ، صوبے بلدیاتی قوانین کے ذریعے الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کے اختیار سے کیوں محروم کر رہے ہیں ۔ عدالت نے یہ دیکھنا ہے کہ بلدیاتی قوانین میں شامل حلقہ بندیوں کی دفعات آئینی کمانڈ سے مماثلت رکھتی ہے یا برعکس ہے۔ فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ 140 اے کے تحت صوبوں نے الیکشن کمیشن کو ایک نظام دیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر بلدیاتی نظام سے الیکشن کمیشن مفلوج ہو تو پھر کیا کرنا چاہئے ، بلدیاتی نظام میں خامیاں ہیں توعدالت کوکیا کرنا چاہئے جب لوگوں کوحلقہ بندیوں پر اعتماد نہیں تو انتخابات کیسے شفاف ہوں گے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ مقصد نظر آ رہا ہے کہ انتخابات کے التواء کا بہانہ مل جائے ۔ کہیں بلدیاتی انتخابات کا میچ فکس تو نہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ مقصد نظر آ رہا ہے کہ بیس تک بلدیاتی انتخابات ہی نہ ہوں۔ سپریم کورٹ نے درخواست گزار اور فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر حلقہ بندیوں سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کےخلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ، پنجاب کی حلقہ بندیوں سے متعلق کیس کی سماعت جاری رہے گی۔

متعلقہ عنوان :