پاکستان میں سزائے موت کی عارضی معطلی نہیں تاہم سزائے موت پر عملدرآمد کو مئوخر رکھا گیا ہے

جمعہ 14 فروری 2014 17:39

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 14فروری 2014ء ) وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے کہا ہے کہ پاکستان میں سزائے موت کی عارضی معطلی نہیں تاہم سزائے موت پر عملدرآمد کو مئوخر رکھا گیا ہے۔ صحافیوں کے تحفظ اور شہید صحافیوں کے متاثرہ خاندانوں کی مالی اعانت کیلئے وزیر اعظم نواز شریف نے وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے جو صحافی تنظیموں سے مشاورت سے لائحہ عمل اختیار کر رہے ہیں جمعہ کو چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری کی زیر صدارت اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران اراکین کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے بتایا کہ ملک بھر میں سزائے موت پانے والے افراد کی تعداد 547ہے جن میں 63افراد کو دہشتگردی اور 484افراد کو قتل کے مقدمات میں عدالتوں سے سزائے موت سنائی گئی ہے ۔

(جاری ہے)

سینیٹر زاہد خان نے وزیر مملکت کے جواب پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے خوف کی وجہ سے سزائے موت پر عملدرآمد روک رکھا ہے جس پر وزیر مملکت بلیغ الرحمان نے کہا کہ سزائے مو ت پر عملدرآمد مئوخر رکھنے کی پالیسی گذشتہ پانچ سال سے چلی آرہی ہے اس ضمن میں صدر مملکت اور وزیراعظم میں مشاورت کا عمل بھی ہوا تھا۔ بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ، صدر آصف علی زرداری کے دور میں کسی کو سزائے موت نہیں ہوئی، 2007ء سے سزائے موت کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا، اگست 2013ء میں صدر اور وزیراعظم کی اس حوالے سے مشاورت ہوئی ہے اس حوالے سے جلد فیصلہ جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ رحم کی کچھ اپیلوں پر فیصلہ نہیں ہوا اور کچھ زیر التواء ہیں، ملک میں سزائے موت کی کوئی عارضی معطلی نہیں ہے، دستور کے آرٹیکل 45 کی رو سے رحم کی اپیل پر صدر کی طرف سے فیصلے پر عملدرآمد کیا جاتا ہے، 70 سزائے موت کے قیدیوں کی رحم کی اپیلیں مسترد ہو چکی ہیں لیکن ان کی سزا پر بھی عمل نہیں کیا گیا، سزاؤں کو موخر کیا گیا ہے، معطل نہیں کیا گیا۔

صحافیوں کے قتل بارے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے ایوان کو بتایا کہ 2008ء سے پنجاب صحافیوں کے دہشت گردی کی کوئی کارروائی ہوئی نہ ہی کسی صحافی کو قتل کیا گیا۔ 2008ء سے پنجاب میں صحافیوں کے خلاف دہشت گردی کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی، سندھ میں 17، خیبرپختونخوا میں 6، فاٹا پشاور میں 5، آئی سی ٹی میں ایک اور بلوچستان میں 8 صحافیوں کو قتل کیا گیا، شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا صوبوں کی ذمہ داری ہے، وفاقی حکومت صوبوں خو انٹیلی جنس معلومات فراہم کرتی ہے جس سے صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے اور یہ بہتری نظر آ رہی ہے۔

وزیر مملکت برائے داخلہ نے بتایا کہ صحافیوں کا قتل صوبائی معاملہ ہے تاہم صحافیوں کے تحفظ اور شہید صحافیوں کے متاثرہ خاندانوں کی مالی اعانت کیلئے وزیر اعظم نواز شریف نے وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے جو صحافی تنظیموں سے مشاورت سے لائحہ عمل اختیار کر رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :