سینیٹر کاظم خا ن کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی قانون انصاف کا اجلاس ،تعلیمی اداروں میں ہراساں کرنے کے واقعات میں روز برروز اضافہ ہو رہا ہے، طالبات کو شکایات کا قانونی فورم فراہم کرنا ضروری ہے ،سینیٹر احمد حسن ، سینیٹر سیف اللہ مگسی،پاکستان میں مخلوط تعلیمی نظام کی وجہ سے اساتذہ اورطلباء کے مسائل میں اضافہ ہوگا ،خواتین کی کام کرنے کی جگہوں پر ہراساں کرنے کے قانون میں مزید ترامیم کے ذریعے حدود تعلیمی اداروں تک بڑھائیں جائیں، فرحت اللہ بابر، جعفر اقبال اور دیگر کا اظہار خیال

جمعرات 13 فروری 2014 21:45

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13 فروری ۔2014ء) سینیٹ قائمہ کیمٹی قانون انصاف کا اجلاس کاظم خان کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا سینیٹر فرحت اللہ بابر کی طرف سے خواتین کی کام کرنے کی جگہوں پر ہراساں کرنے کے قانون میں مزید ترامیم کے ذریعے اس کی حدود تعلیمی اداروں تک بڑھانے پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک طالبہ کی طرف سے یونیورسٹی کے سینیئر افسر کے خلاف ہراساں کرنے کے الزامات انکوئری کمیٹی ، سنڈیکیٹ میں ثابت ہوگئے اور متعلقہ افسر معطل کردیا گیا لیکن وزارت قانون نے رائے دی کہ اس قانون کا اطلاق تعلیمی اداروں پر نہیں ہوتا اور صدر پاکستان سے اپیل کی اجازت دے دی گئی طالبہ نے اپنی عزت اور مستقبل کو خطرہ میں ڈال کر اپنی شکایت کو ثابت کیا میر ی ترمیم کو شامل کر کے اس قانون کا دائرہ تعلیمی اداروں تک بڑھایا جائے اور کمیٹی کی طرف سے قوم کو مثبت پیغام دیا جائے جس پر کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر کاظم خان نے کہا کہ خواتین کو ہراساں کرنے کے کئی طریقے ہیں اور قانون میں بعض کی تعریف بھی نہیں کی گئی اصولی طور پر ترمیم ضروری ہے لیکن قانون سازی کے ذریعے سینیٹر راجہ ظفر الحق نے دائرہ وسیع کرنے پر زور دیا اور ٹائٹل کی تبدیلی کی بھی سفارش کی سینیٹر احمد حسن کے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ہراساں کرنے کے واقعات میں روز برروز اضافہ ہو رہا ہے ۔

(جاری ہے)

سینیٹر سیف اللہ مگسی نے کہا کہ بلخصوص طالبات کو شکایات کا قانونی فورم فراہم کرنا ضروری ہے ۔ سینیٹر رضاربانی نے کہا کہ سرکاری اداروں میں سینئر افسران اپنے ماتحتوں کے ساتھ نامناسب رویہ اختیا ر کرتے ہیں اور تعلیمی اداروں میں بھی خواتین کے ساتھ ذیادتیاں ہوتی ہیں سینیٹر چوہدری جعفر اقبال نے کہا پاکستان میں مخلوط تعلیمی نظام کیوجہ سے اساتذہ اورطلباء کے مسائل میں اضافہ ہوگا سینیٹر مظفر شاہ نے قانون کے دائرہ میں توسیع اور موثر بنانے کی تجویز دی ۔

ترمیم بل پر مزید غور غوض اورمزید بہتری کے لیے موخر کر دیا گیا سینیٹر رضاربانی اور سعید غنی کیطرف سے محنت کشوں کو صوبائی اسمبلیوں میں دو اور قومی اسمبلی میں ایک نشست دینے کے ترمیمی بل پر سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ بینکنگ آرڈینینس سول سروسسز ایکٹ اور جنرل مشرف کے آرڈینینس کے تحت مزدورں کے حقوق کا تحفظ مشکل ہے صوبائی و قومی اسمبلیوں میں نمائندگی سے مزدورں کو اپنی آواز کا موثر فورم میعسر آئے گا ۔

راجہ ظفر الحق نے کہا کہ تمام طبقات کی نمائندگی پر غور کی ضرورت ہے سیاسی جماعتوں کو پابند کیا جائے کہ و اسمبلیوں میں مزدورں کو بھرپور نمائندگی دیں جس کی سینیٹر ظفر علی شاہ اور سینیٹر جعفر اقبال نے حمایت کی سینیٹر احمد حسن اور سینیٹر سیف اللہ مگسی نے سینیٹر رضاربانی اور سینیٹر سعید غنی کے بل کی حمایت کی سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ کسانوں اور ہاریوں کو بھی نمائندگی دی جائے متعلقہ بل پر بھی غور موخر کر دیا گیا ۔

سینیٹر صغراامام اور سینیٹر رضاربانی کی طرف سے سرکاری ملازمین اور ججز کی دوہری شہریت کے ترمیمی بل پر بحث کے دوران سینیٹر صغرا امام نے کہا کہ پاکستانی شہری کا دوسرے ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اور سرکاری ملازم اور افسر جس نے دوسے ملک کا حلف اٹھایا ہو حلف اٹھانے والے افسر سے سرکاری راز اور قومی سلامتی محفوظ نہیں رہ سکتی امریکی شہری تو امریکہ کے لیے ہتھیار بھی اٹھانے کا حلف اُٹھاتا ہے پارلیمنٹرینز پر دوہری شہریت کی پابندی ہے سب پر اطلاق ہونا چاہیے جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر کاظم خان نے کہا کہ پارلیمنٹرینز کی نوکری کچی اور سرکاری ملازم کی نوکری پکی ہوتی ہے بل کو مزید موثر بنانے کے لیے سینیٹر رضاربانی کی درخواست پر یہ بل بھی موخر کر دیا گیا سینیٹر محن خان لغاری کی طرف سے انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کے طرف سے نئے صوبوں کے قیام کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کے حوالے سے بحث کے دوران سینیٹر محسن خان لغاری نے کہا کہ پچھلی حکومت نے عوام کی مرضی کے بغیر آرٹیکل 239/4 کے تحت جس میں درج ہے کہ علاقے اور صوبے کی اجازت کے بغیر کسی بھی صوبے کی تقسیم نہیں کی جاسکتی اس وجہ سے ہی بھکر اور میا نیوالی کے لوگو ں نے اپنے علاقوں کو نئے صوبوں کو شامل کرنے پر ہڑتالیں کی تھیں سینیٹر رضاربانی نے کہا کہ 18 ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری کا معاملہ طے ہوچکا صوبائی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے منظوری اور قومی اسمبلی سے پاس ہونے والی قراداد کے بعد نئے صوبے کا قیام ممکن ہے اجلاس میں قومی احتساب بیورو ترمیمی بل کو غیر موثر قرار دے دیا گیا اور انتخابی قوانین کی ترمیمی آرڈنینیس اور انسداد حدود آرڈنینس پر بحث بھی موخر کر دی گئی۔

تمام مجوزہ ترمیمی بلز پر بار کونسلوں اور سپریم کورٹ کے موجودہ اور سابق صدور کی رائے حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔

متعلقہ عنوان :