ملزم جس عدالت میں چاہے اپنا مقدمہ منتقل کروا سکتا ہے ، پرویز مشرف کا مقدمہ فوجی عدالت کو بھجوایا جائے ، وکیل پرویز مشرف ،جب ملک میں ایمرجنسی لگ جائے تو پھر تمام عدالتیں فوجی عدالتوں کے ماتحت ہوجاتی ہیں ،خالد رانجھا ،1977کے ترمیمی ایکٹ کو پڑھ لیں ،شق کا اطلاق صرف انھی علاقوں میں ہوگا جہاں پر فوج سول انتظامیہ کی مدد کیلئے بلائی جاتی ہے ،طاہرہ صفدر ، ملزم کے وکیل جس ترمیمی ایکٹ 1977 کی بات کر رہے ہیں اس کو لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی کالعدم قرار دے چکی ہے ،اکرم شیخ ،کالعدم قرار دئیے جانے والے کسی بھی قانون کے تحت کسی بھی شخص کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا ، پراسکیوٹر

منگل 11 فروری 2014 21:56

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔11 فروری ۔2014ء) خصوصی عدالت میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کے دوران ان کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا ہے کہ جب ایک ہی مقدمہ سول اور فوجی عدالتوں میں چل رہا ہو تو ملزم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جس عدالت میں چاہے اپنا مقدمہ منتقل کروا لے۔منگل کو جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بنچ پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت کی ۔

سماعت شروع ہوئی تو سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے وکیل خالد رانجھا نے کہاکہ بنیادی انسانی حقوق کا تقاضا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا مقدمہ متعلقہ فورم میں بھجوایا جائے اور متعلقہ فورم فوجی عدالت ہی ہے۔خالد رانجھا نے کہا کہ جب ملک میں ایمرجنسی لگ جائے تو پھر تمام عدالتیں فوجی عدالتوں کے ماتحت ہوجاتی ہیں۔

(جاری ہے)

اس پر خصوصی عدالت کی سماعت کرنے والی عدالت میں شامل جسٹس طاہرہ صفدر نے کہاکہ وہ 1977 کے ترمیمی ایکٹ کو ایک بار پھر پڑھ لیں جس میں کہا گیا ہے کہ اس شق کا اطلاق صرف اْنھی علاقوں میں ہوگا جہاں پر فوج سول انتظامیہ کی مدد کے لیے بْلائی جاتی ہے اور یہ شق صرف غیر فوجی افراد کو فوجی ایکٹ کے دائرے میں لانے کیلئے ہے۔

پرویز مشرف کے وکیل نے کہاکہ 1952 کے آرمی ایکٹ میں غداری جیسے سنگین مقدمے کو بھی آرمی ایکٹ کے تحت لایا گیا ہے اور اس لیے فوجی اہلکاروں کو اس ایکٹ میں لانے کے لیے نئی ترمیم کی ضرورت نہیں ۔خالد رانجھا نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت غداری کے مقدمے کی سماعت نہیں ہوسکتی۔ اْنھوں نے کہا کہ اس ایکٹ میں یہ گْنجائش رکھی گئی ہے کہ جس شخص کے خلاف اس ایکٹ کے تحت کارروائی ہو رہی ہو تو اْس کے خلاف کسی دوسری عدالت میں کارروائی نہیں ہوسکتی۔

پرویز مشرف کے وکیل کے دلائل ختم ہونے کے بعد چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہاکہ ملزم کے وکیل جس ترمیمی ایکٹ 1977 کی بات کر رہے ہیں اْس کو لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی کالعدم قرار دے چکی ہے۔اْنھوں نے کہا کہ کالعدم قرار دیے جانے والے کسی بھی قانون کے تحت کسی بھی شخص کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا۔مقدمے کی سماعت (کل)بدھ تک ملتوی کردی گئی چیف پراسیکیوٹر اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

متعلقہ عنوان :