سپریم کورٹ نے 4 انتخابی حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق سے متعلق کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا ،الیکشن کمیشن سے انتخابی عملے میں وفاق اور صوبائی ملازمین کی شرح سے متعلق تحریری جواب طلب ، انتخابی عملے کی تعیناتی قواعد کے مطابق ہونی چاہئے ، اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا جواب تسلی بخش نہیں ، چیف جسٹس

منگل 11 فروری 2014 14:16

سپریم کورٹ نے 4 انتخابی حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق سے متعلق کیس میں اٹارنی ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 11فروری 2014ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے 4 انتخابی حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق سے متعلق کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے انتخابی عملے میں وفاق اور صوبائی ملازمین کی شرح سے متعلق تحریری جواب طلب کر لیا ہے ۔منگل کو چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے تحریک انصاف کی چار حلقوں میں دھاندلی کے خلاف درخواست کی سماعت کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ملک بھر میں دھاندلی ہوئی تو پھر 4 حلقوں کی کیوں درخواست دی ؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ اس لیے آئے ہیں تاکہ دھاندلی کا معاملہ سامنے آسکے سماعت کے دوران قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 125 لاہور اور این اے 154 لودھراں میں داخل عذرداریوں کی سماعت کرنے والے الیکشن ٹربیونل نے تحریری جواب میں بتایا کہ تحریک انصاف کے امیدوار حامد خان اپنی مرضی سے رپورٹ لینا چاہتے ہیں، ہمارے سامنے نہ گواہ پیش کئے گئے نہ ہی دھاندلی کے کوئی ثبوت دیئے گئے اور تحریک انصاف صرف نادرا سے انگوٹھوں کی تصدیق کرانے پر اصرار کررہی ہے۔

(جاری ہے)

تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن ٹریبونل کے سامنے معاملہ جھگڑے میں پڑگیا تھا اس لئے جج معاملہ نمٹانا نہیں چاہتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی درخواست کسی دوسرے ٹریبونل کو بھجوانے کی درخواست دی تھی۔تحریک انصاف کے رہنما حامد خان نے موقف اختیار کیا کہ الیکشن ٹربیونل کے جج معاملہ نمٹانا نہیں چاہتے تھے، پٹیشن کسی دوسرے ٹربیونل کو بھجوانے کی درخواست دی تھی، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کو الیکشن ٹربیونل کے سامنے دھاندلی کے ثبوت رکھنے چاہئے تھے،اس موقع پر حامد خان نے الیکشن ٹربیونل کی ایک رپورٹ پڑھی جس کے مطابق انتخابات کے دوران بعض مقامات پر الیکشن کمیشن کا عملہ موجود نہیں تھا، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ الیکشن ٹریبونل کے خیال میں ثبوت ناکافی ہوتے تو وہ اسے مسترد کر دیتے، آپ کو الیکشن ٹریبونل کے سامنے دھاندلی کے ثبوت رکھنے چاہئے تھے۔

سماعت کے دوران سیکرٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کوشش کی کہ انتخابی عملے کی تعیناتی میں وفاقی و صوبائی حکومت کے اہلکار شامل ہوں تاہم وفاق کی جانب سے ملازمین کی عدم دستیابی پر عملے کی تعیناتی غیر متوازن ہوئی۔ ریٹرننگ افسر اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ پولنگ عملہ کون ہوگا، انتخابی عملے کے لئے وفاقی اور صوبائی ملازمین کی تعیناتی کی شرح مخصوص نہیں چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابی عملے کی تعیناتی قواعد کے مطابق ہونی چاہئے اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا جواب تسلی بخش نہیں ہے۔بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے بھی جواب طلب کر لیا، آئندہ سماعت مارچ کے پہلے ہفتے میں ہو گی