غداری کیس ، سابق صدر پرویز مشرف اور پراسیکیوٹر اکرم شیخ کے درمیان کے شدید جھڑپ پر عدالت کا سخت برہمی کااظہار ، وکلاء نے جیسا رویہ اختیار کیا ہے اسکول کے بچے بھی ایسا نہیں کرتے ہیں ،وکلا آفیسرز آف دی کورٹ ہیں ،عدالتی وقار کا احترام کرنا چاہیے ،جسٹس فیصل عرب ،آرٹیکل 6 صرف سنگین غداری کی تعریف سے متعلق ہے، اس کے تحت خصوصی عدالت میں کارروائی صرف سویلین افراد تک ہی محدود ہے، آئین شکنی کا جرم کوئی فوجی کرے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے ،آرمی ایکٹ میں سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کی شقیں موجود ہیں جن کی موجودگی میں پرویز مشرف کے خلاف کسی غیر فوجی عدالت میں مقدمہ نہیں چل سکتا ، خالد رانجھا کے دلائل ،مشرف کی جانب سے مقدمے کی فوجی عدالت منتقلی کی درخواست کو اعتراف جرم نہ سمجھا جائے ، خالد رانجھا ،اعتراف جرم ملزم کی اپنی زبان سے بھی ہو تو عدالت احتیاط سے جائزہ لیتی ہے ، جسٹس فیصل عرب ،فوجی عدالتوں کا قانون عام عدالتوں سے زیادہ سخت ہے ،قانون کا تقاضا نہ ہو تو کوئی پاگل ہی مقدمہ عام عدالت سے فوجی عدالت میں لے جائیگا، خالد رانجھا

پیر 10 فروری 2014 23:45

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10 فروری ۔2014ء) غداری کیس میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اور پراسیکیوٹر اکرم شیخ کے درمیان کے شدید جھڑپ پر عدالت نے سخت برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وکلاء نے جیسا رویہ اختیار کیا ہے اسکول کے بچے بھی ایسا نہیں کرتے ہیں ،وکلا آفیسرز آف دی کورٹ ہیں ،عدالتی وقار کا احترام کرنا چاہیے جبکہ پرویز مشرف کے وکیل خالد رانجھا نے کہا ہے کہ آرٹیکل 6 صرف سنگین غداری کی تعریف سے متعلق ہے، اس کے تحت خصوصی عدالت میں کارروائی صرف سویلین افراد تک ہی محدود ہے، آئین شکنی کا جرم کوئی فوجی کرے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے ،آرمی ایکٹ میں سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کی شقیں موجود ہیں جن کی موجودگی میں پرویز مشرف کے خلاف کسی غیر فوجی عدالت میں مقدمہ نہیں چل سکتا۔

(جاری ہے)

پیر کو جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی عدالت سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت کی سماعت شروع ہوئی تو استغاثہ ٹیم کے سربراہ اکرم شیخ اور سابق صدر کے وکیل رانا اعجاز کے درمیان جھڑپ ہوگئی، اکرم شیخ نے الزام عائد کیا کہ پرویز مشرف کے وکیل رانا اعجاز نے ان پر حملے کی کوشش کی جس پر جسٹس فیصل عرب نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کمرہ عدالت میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے کا ریکارڈ طلب کرلیا۔

انہوں نے کہا کہ جیسا رویہ وکلا کی جانب سے اختیار کیا گیا ہے کالج اور اسکول کے بچے بھی ایسا نہیں کرتے، وکلا آفیسرز آف دی کورٹ ہیں انہیں عدالتی وقار کا احترام کرنا چاہیے۔سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل خالد رانجھا نے دلائل کا آغاز کرنے سے پہلے کہا کہ دن کا آغاز اچھا نہیں ہوا، وکلا نے آپ کا موڈ خراب کردیا اگر قاضی کا موڈ اچھا نہ ہو تو کیس نہیں سننا چاہیے،جسٹس فیصل عرب نے خالد رانجھا کو ہدایت کی کہ وہ دلائل کا آغاز کریں ۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 6 صرف سنگین غداری کی تعریف سے متعلق ہے، اس کے تحت خصوصی عدالت میں کارروائی صرف سویلین افراد تک ہی محدود ہے، آئین شکنی کا جرم اگر کوئی فوجی کرے تو اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد فوجی ملازم کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہی ہوتا ہے۔ سابق آرمی چیف کا صرف آرمی ایکٹ کے ذریعے ہی ٹرائل کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1977 میں ترمیم کے ذریعے سنگین غدرای کے جرم کو آرمی ایکٹ میں شامل کیا گیا، آرمی ایکٹ میں بھی سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کی شقیں موجود ہیں جن کی موجودگی میں پرویز مشرف کے خلاف کسی غیر فوجی عدالت میں مقدمہ نہیں چل سکتا۔خالد رانجھا نے کہا کہ پرویز مشرف کی جانب سے مقدمے کی فوجی عدالت منتقلی کی درخواست کو ان کا اعتراف جرم نہ سمجھا جائے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ اعتراف جرم ملزم کی اپنی زبان سے بھی ہو تو عدالت احتیاط سے جائزہ لیتی ہے۔

مشرف کے وکیل خالد رانجھا نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قانون عام عدالتوں سے زیادہ سخت ہے اور اگر قانون کا تقاضا نہ ہو تو کوئی پاگل ہی مقدمہ عام عدالت سے فوجی عدالت میں لے جائیگا، انہوں نے کہا کہ اگر کوئی بھی فوجی افسر آئین کیخلاف کوئی کام کرتا ہے تو پھر آرمی ایکٹ کا قانون خود بخود لاگو ہو جاتا ہے۔خالد رانجھا نے تین فوجی جرنیلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب ان پر بدعنوانی کے الزامات لگے تھے تو ان فوجی افسران کو ان کے عہدوں پر بحال کرنے کے بعد ان کیخلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا، خالد رانجھا نے سوال کیا کہ جب ملزم کو اس بات کا ہی علم نہ ہو کہ اس کا مقدمہ کس عدالت میں چلے گا تو وہ کیسے اپنے خلاف لگائے جانیوالے الزامات کا دفاع کرسکتا ہے؟جسٹس فیصل عرب نے اس موقع پر کہا کہ اس ضمن میں کوئی نوٹیفکیشن بھی جاری کرنا ضروری ہوتا ہے جس پر خالد رانجھا نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔

انھوں نے کہا کہ غداری کا مقدمہ فوجی عدالت میں منتقل کرنے سے متعلق 23 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں دیا گیابعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت 11 فروری تک ملتوی کردی ۔