پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کاترقیاتی فنڈز کے معاملے میں نظر انداز کرنے پر احتجاج جاری ،اجلاس کے بائیکاٹ کی دھمکی دیدی،اگر حکومت ساتھ لے کر نہیں چلے گی تو اس ہاؤس کو نہیں چلنے دیں گے ،بائیکاٹ کرکے سڑک پرعوامی اسمبلی لگا لیں گے‘ اپوزیشن ،جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دینگے ،وزیر قانون پی پی اور (ق) لیگ کے اراکین کی وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کا وقت طے کرائیں ‘ سردار شہاب الدین،ترقیاتی بجٹ حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے ،اپوزیشن حکومتی معاملات میں شامل ہونا چاہتی ہے تو آ جائے اس سے بہتر پیشکش کرنے کو تیار ہیں ،وزیر قانون،ہم بھی چاہتے ہیں فیکٹریوں میں لیبر لاز کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانے کئے جائیں ،اسمبلی سے ایسے قوانین پاس ہونے چاہئیں‘ وقفہ سوالات

پیر 10 فروری 2014 20:45

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10 فروری ۔2014ء) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے ترقیاتی فنڈز کے معاملے میں نظر انداز کئے جانے پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت اپوزیشن کو ساتھ لے نہیں چلے گی تو اس ہاؤس کو نہیں چلنے دیں گے اور بائیکاٹ کرکے سڑک پرعوامی اسمبلی لگا لیں گے ، سردار شہاب الدین نے وزیر قانون رانا ثنا اللہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے اراکین اسمبلی کی وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کا وقت طے کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے اور حکومت سے بھی کہتے ہیں کہ 90کی دہائی کو نہ دہرایا جائے جبکہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ ترقیاتی بجٹ حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے اگر اپوزیشن حکومتی معاملات میں شامل ہونا چاہتی ہے تو آ جائے انہیں اس سے بہتر پیشکش کرنے کو تیار ہیں ،تحریک انصاف والوں سے کہتا ہوں کہ گھر میں بیٹھ کر مشورہ کرلیں میاں محمود الرشید اپنے بھائی کی میرٹ پر تعیناتی کے باوجود اپنے ساتھ پارٹی میں ہونے والاسلوک دیکھ چکے ہیں ۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی کا اجلاس سوموار کے روز مقررہ وقت تین بجے کی بجائے چالیس منٹ کی تاخیر سے اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔ تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول کے بعد وقفہ سوالات جاری تھا کہ حکومت کو آغاز پر ہی تحریک انصاف کے رکن اسمبلی علی رضا دریشک نے کورم کی نشاندہی کر کے مشکلات میں ڈال دیا اور کورم پورا نہ ہونے کے باعث اسپیکر نے اجلاس آدھے گھنٹے کے لئے ملتوی کر دیا ۔

دوبارہ اجلاس شروع ہونے کے بعد بھی حکومت کو کورم پورا کرنے کیلئے مشکلات کا سامنا رہا اور ملک ندیم کامران اور دیگر حکومتی ذمہ داران لابی میں سے اراکین اسمبلی کو ایوان میں لاتے رہے ۔ پیپلز پارٹی کے سردار شہاب الدین نے پوائنٹ آف آرڈر پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے تمام اضلاع میں ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کمیٹیوں کاقیام عمل میں لایا گیا ہے لیکن اس میں اپوزیشن کو نمائندگی نہیں دی گئی جبکہ اس کے برعکس ہارے ہوئے لوگوں کو ان کمیٹیوں میں شامل کیا گیا ہے جس سے ہمارا استحقاق مجروح ہو رہا ہے ہم نے تحریک استحقاق بھی جمع کرائی ہے لیکن اسے نہیں لیا جارہا ۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے ساتھ امتیازی سلوک جمہوریت کی نفی ہے ۔ وزیر قانون ہمیں انصاف کی یقین دہانی کرائیں ۔ اسکے جواب میں وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اپوزیشن اراکین نے مجھ سے متعدد بار بات کی ہے لیکن میں نے انہیں بتایا ہے کہ ترقیاتی بجٹ کا استعمال حکومت کا صوابدیدی اختیار ہوتا ہے ۔ حکومت نے اضلاع اور ریجن کی سطح پر ترقیاتی سکیموں کی نشاندہی کے لئے ڈسٹر کٹ ڈویلپمنٹ کمیٹیاں بنائی ہیں ۔

فنڈز کے معاملات ایوان کا فنکشن نہیں ہے اور رولز میں بھی ایسا کہیں نہیں لکھا ہوا ہے ۔ ان کمیٹیوں کو ایگزیکٹو آرڈر سے بنایا گیا ہے اور اس میں اراکین اسمبلی ،عام شہری اور ٹیکنو کریٹس کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے ۔اگر اپوزیشن حکومتی معاملات میں آنا چاہتی ہے تو ہم انہیں اس سے بہتر پیشکش کرنے کو تیار ہیں ۔ سردار شہاب الدین نے کہا کہ رانا ثنا اللہ کس قانون کی بات کر رہے ہیں کہاں لکھا ہوا ہے کہ ہارے ہوئے لوگوں کوکمیٹیوں میں شامل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتے اور حکومت سے بھی کہتے ہیں کہ 90کی دہائی کو نہ دہرایا جائے ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کی ملاقات کے لئے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کا ٹائم فریم طے کرایا جائے ۔ رانا ثنا اللہ خان نے دوبارہ کہا کہ یہ معاملہ ایگزیکٹو فنکشن ہے اس کے لئے اپوزیشن کو وزیر اعلیٰ کو درخواست کرنا ہو گی اور حکومت کا حصہ بن جائیں ۔

اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے کہا کہ حکومت نے کمیٹیوں میں شکست خوردہ لوگوں کو شامل کر رکھا ہے اور یہ اراکین اسمبلی ، ایوان اور جمہوریت کی توہین ہے ۔ حکومت کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا ہو گی ۔ ہم وزیر قانون سے کہتے ہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے ہماری طرف سے درخواست کریں کہ وہ ایوان میں تشریف لے آئیں تاکہ ہم انہیں عوام کے جذبات سے آگاہ کرسکیں ۔

حکومتی رکن زعیم قادری نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر فنڈز مانگ کرتحریک انصاف کے منشور کی نفی کر رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ خود کہہ چکے ہیں کہ فنڈز اراکین اسمبلی کا حق نہیں ہے اور اب انکی بد دیانتی سامنے آ گئی ہے او رخیبر پختوانخواہ میں بھی یہی معاملہ چل رہا ہے ۔ جس پر اپوزیشن لیڈر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت دھونس دھاندلی اور چھ چھ ماہ کا وقت لے کر بلدیاتی انتخابات کو آگے لیکر جارہی ہے ۔

اگر بلدیاتی ادارے نہیں ہوں گے تو حلقے کی عوام کے کام کس نے کرانے ہیں ہم آج بھی کہتے ہیں کسی رکن اسمبلی کو فنڈز نہ دیں لیکن فی الفور بلدیاتی انتخابات کرائیں ۔ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ ہم بھی کہتے ہیں کہ فی الفور بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں اور پنجاب حکومت اس کے لئے پوری طرح تیار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے لوگوں نے ہی ہائیکورٹ سے فیصلہ لیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ذریعے حلقہ بندیاں کرائی جائیں الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کر کے تاریخ دیدے ہم انتخابات کرانے کے لئے تیار ہیں ۔

عدالت نے اس سے قبل ہمیں جو ہدایات دی ہیں ہم نے ٹائم فریم میں رہتے ہوئے اس پرعمل کیا ہے ۔ میں اپوزیشن سے دوبارہ کہوں گا کہ بجٹ منظو رکرنا ایوان کا کام ہے اور ترقیاتی فنڈز حکومت کی صوابدید ہوتا ہے اور ہم بلا تفریق ترقیاتی کام کر ا رہے ہیں ۔ میں اپوزیشن لیڈر کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ آئندہ ترقیاتی بجٹ میں رکھے جانے والے فنڈز میں کتنے اپوزیشن کے حلقوں میں خرچ ہوں گے اسکی تفصیلات بتانے کو تیار ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ میں اپوزیشن والوں سے کہتا ہوں کہ وہ گھر میں بیٹھ کر مشورہ کر لیں ،میاں محمود الرشیدنے کبھی بھی وزیر اعلیٰ یا مجھ سے اپنے بھائی کے تبادلے کے لئے نہیں کہا او رحکومت نے میرٹ پر انکے بھائی کی تعیناتی کی لیکن اسکے بعد پارٹی نے انکے ساتھ کیا سلوک کیا وہ جانتے ہیں اس لئے بہتر ہے کہ وہ گھر بیٹھ کر مشورہ کرلیں ۔ میاں اسلم اقبال نے کہا کہ اگر حکومت اپوزیشن کو ساتھ لے کر نہیں چلے گی تو یہ ہاؤس نہیں چلے گا ۔

ہم اجلاس کا بائیکاٹ کریں گے اور پھر باہر سڑک پر عوامی اسمبلی لگے گی ۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے تحریک انصاف ، مسلم لیگ (ق)،تحریک انصاف اور آزاد اراکین کو ووٹ دئیے ہیں انہوں نے کیا گناہ کیا ہے انہیں کیو ں نظر انداز کیا جارہا ہے حکومت ہمارے ساتھ ایسا رویہ نہ رکھے ۔ انہوں نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہاؤ س کے کسٹوڈین ہیں اور آپ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو لے کر چلیں ۔

انہوں نے کہا کہ حلقوں کے لئے ترقیاتی فنڈز ہمارے گھروں میں نہیں لگنے ہم عوام کا مینڈیٹ لے کر آئے ہیں ۔قبل ازیں اجلاس میں محنت و انسانی وسائل او رسپیشل ایجوکیشن سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے گئے ۔ صوبائی وزیر راجہ اشفاق سرور نے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ فیکٹریوں میں لیبر لاز کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانے کئے جائیں تاکہ وہ آئندہ کیلئے محتاط ہو سکیں لیکن جرمانے کرنا عدالتوں کا کام ہے او راسمبلی سے ایسے قوانین پاس ہونے چاہئیں ۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ لیبر کالونیوں کے لئے الاٹ کئے جانیوالے پلاٹس کا برا حال ہے اور اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم فلیٹس اور کالونیاں بنا کر مزدوروں کو انکی چابیاں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں چائلڈ لیبرکی نشاندہی نہیں ۔ حالیہ دنوں میں گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں اور انکے خلاف کریمنل ایکٹ کے کیس درج کئے گئے ہیں ۔