بلاول بھٹو مارچ میں لاہور کا دورہ کرکے پاکستان کی سیاست کا آغاز کریں گے‘ منظور وٹو ،صوبہ بھر کے تنظیمی اور مختلف ونگز کے عہدیداروں ،سینئر صحافیوں، دانشوروں کے علاوہ تعلیمی اداروں کے طلبہ سے ملاقاتیں کرینگے ،پنجاب کو ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کا گڑھ بنائیں گے ،ایسی اپوزیشن نہیں کرینگے جس سے کسی طالع آزما کو مداخلت کا موقع ملے‘ پریس کانفرنس

اتوار 9 فروری 2014 19:56

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔9 فروری ۔2014ء) پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری مارچ کے پہلے ہفتیلاہور کا دورہ کرکے پاکستان کی سیاست کا آغاز کریں گے ،پارٹی کے چیئرمین لاہور میں موجودگی کے دوران صوبہ بھر کے تنظیمی اور مختلف ونگز کے عہدیداروں ،سینئر صحافیوں، دانشوروں کے علاوہ تعلیمی اداروں کے طلبہ سے بھی ملاقاتیں کرینگے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زردار ی کے دورہ لاہور کے سلسلہ میں منعقدہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر اشرف سوہنا‘ فیصل میر‘عابد صدیقی ‘ بشیر ریاض مجاہد سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔ منظور وٹو نے کہا کہ بلاول بھٹو کے دورہ لاہور سے پارٹی متحرک ہو گی اور پنجاب کو ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کا گڑھ بنائیں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ خود ینگ نہیں لیکن وہ یوتھ کے حقیقی لیڈر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ بلاول بھٹو لاہور میں مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ سے بھی ملاقاتیں کریں اور وہ حقیقی معنوں میں یوتھ کے لیڈر ہیں ۔ انہوں نے بلاول بھٹو کے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی غیر مسلم ملک کا صدر یا وزیرا عظم بن سکتا ہے ۔ بلاول بھٹو کا طالبان کے حوالے سے بیان پارٹی پالیسی ہوتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی حکومت کو مذاکرات کے حوالے سے مکمل اختیار دے چکی ہے ،طالبان کی طرف سے سامنے آنے والی شرائط پر غوروخوض کرنا چاہیے ۔ انہوں نے فرینڈلی اپوزیشن کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہم ایسی اپوزیشن نہیں کریں گے جس سے کسی طالع آزما کو مداخلت کا موقع ملے ہم حکومت کی ٹانگ نہیں کھینچنا چاہتے لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت اپنے وعدوں پر عملدرآمد کرے اور عوام کو ریلیف دے ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی حکومت کی طرف سے قومی اداروں کی بندر بانٹ کی شدید مخالفت کرے گی ۔ پیپلز پارٹی کے دور میں لوگوں کو روزگار دیا جاتا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) روزگار چھیننے والی جماعت ہے۔ چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کرنے والے آج کہاں ہیں ۔