چھپ چھپا کر کام کرنیوالے پاکستانی تنخواہ کا 80فیصد حصہ کفیلوں کو دے رہے ہیں ، صرف بیس فیصد گھر بھیجتے ہیں ، رپورٹ

جمعہ 7 فروری 2014 12:50

لندن /ریاض (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 7فروری 2014ء)سعودی عرب میں پاکستانی شہریوں نے کہاہے کہ چھپ چھپا کر کام کرنے والے پاکستانی اپنی تنخواہ کا 80فیصد حصہ کفیلوں کو دے رہے ہیں ، صرف بیس فیصد اپنے گھروں کو بجھوانے میں کامیاب ہوتے ہیں ، جب تک کفیل کو پیسے نہیں دینگے تو باہر کام کر نے کی اجازت نہیں دیگا ،سفارت خانے کا عملہ اپنی مرضی سے کام کرتا ہے ، کوئی پوچھنے والا نہیں ۔

غیر ملکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستانی شہری ظہور عباسی نے کہاکہ پہلے تو ان کا سٹیٹس قانونی تھا تاہم نئے قوانین کے بعد وہ بھی غیر قانونی قرار دئیے گئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اب اْن کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ چھپ کر ہی کام کریں کیونکہ پاکستان میں ان کے مالی حالات ایسے نہیں ہیں کہ واپس آکر وہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔

(جاری ہے)

ظہور عباسی نے بتایا کہ جب تک کفیل کو پیسے نہیں دیں گے تو وہ باہر کام کرنے کی اجازت نہیں دیگا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ پولیس کو اطلاع بھی دے سکتا ہے جس کے بعد پولیس گرفتار کرکے وطن واپس بجھوا دیگی۔

ایک اور پاکستانی محمد فیاض نے کہاکہ چھپ چھپا کر کام کرنے والے پاکستانی اپنی تنخواہ کا اسی فیصد حصّہ کفیلوں کو دے رہے ہیں جبکہ صرف بیس فیصد اپنے گھروں کو بجھوانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔انھوں نے دعوی کیا کہ جو پاکستانی قانونی طور پر کفیلوں کے پاس کام کررہے ہیں ان میں سے اکثریت کو پیسے نہیں مل رہے اور تنخواہ کا مطالبہ کرنے پر پولیس کے حوالے کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔

غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کی حالت زار سے متعلق پاکستانی سفارت خانے کے رویے کے بارے میں محمد فیاض نے کہاکہ دو دو روز تک پاکستانی سفارت خانے کے باہر لائنوں میں لگے ہوتے ہیں تاہم اْن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ سفارت خانے کا عملہ اپنی مرضی سے کام کرتا ہے اور اْنھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔محمد فیاض نے کہاکہ سفارت خانے کے عملے کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو سفارت خانے کے باہر لوگوں کی مدد نہیں کرتے وہ حراستی مرکز میں قید پاکستانیوں کی مدد کو کہاں پہنچتے ہوں گے۔

سعودی عرب میں مقیم صحافی راشد حسین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں کفیلوں کے خلاف کارروائی کرنے کا قانون تو موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد ہونے کی مثالیں بہت کم ہیں۔اْنہوں نے کہا کہ اب سعودی عرب میں اس بات کا بھی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اگر ایک طرف غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے تو دوسری اْن کفیلوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جو پیسے لیکر ویزے بیچتے ہیں اور بعد میں اْن غیر ملکیوں سے پیسے لے کر اْنھیں دوسری جگہ کام کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔