وزیراعلی خیبرپختونخوا کاصفوت غیورشہید میموریل چلڈرن ہسپتال کادورہ،عملے کی غیر حاضری، بد انتظامی اور صفائی کی ابتر صورتحال پر انتہائی برہمی کا اظہار ، ایم ایس، ڈی ایم ایس، ڈسپنسر، سٹور کیپر، ایمبولینس ڈرائیور، چوکیدار اور سویپر سمیت متعدد اہلکاروں کو معطل کردیا

جمعرات 6 فروری 2014 20:17

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔6 فروری ۔2014ء) خیبرپختونخواکے وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے حاجی کیمپ جی ٹی روڈ پر واقع صفوت غیور شہید میوریل چلڈرن ہسپتال کا اچانک معائنہ کیا جہاں عملے کی غیر حاضری، بد انتظامی اور صفائی کی ابتر صورتحال پر انتہائی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایم ایس، ڈی ایم ایس، ڈسپنسر، سٹور کیپر، ایمبولینس ڈرائیور، چوکیدار اور سویپر سمیت متعدد اہلکاروں کو معطل کرکے انکی تنخواہیں بھی روکنے اور معاملے کی اعلیٰ سطح پر انکوائری کرانے کی ہدایت کردی جس کی فوری تکمیل کرتے ہوئے ان تمام کی معطلی اور محکمانہ انکوائری کے نوٹیفکیشن جاری کردیئے گئے وزیراعلیٰ اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے اپنے مشیر برائے معدنی ترقی ضیاء اللہ آفریدی، پارلیمانی سیکرٹری میاں خلق الرحمان، ڈیڈیک پشاور کے چئیرمین اشتیاق ارمڑ اور ایم این اے عمران خٹک کے ہمراہ رات گئے وہاں پہنچے تو ڈیوٹی پر مامور ڈی ایم ایس ڈاکٹر حضرت علی، ایمبولینس ڈرائیور داؤد اور سویپر رضوان کو غیر حاضر پایا، ڈیوٹی روسٹر بے ترتیب پڑا تھا ایمرجنسی اٹنڈ کرنے والا واحد ڈاکٹر امتیاز آفریدی یونیفارم کے بغیر بیٹھا وہاں لائے جانیوالے مریض بچوں کے طبی آلات کے بغیر معائنے کے ساتھ ساتھ مونگ پھلی کھانے میں مصروف تھا ڈسپنسر معاذ اللہ انجکشن سیفٹی پروٹوکول کے بغیر بچوں کو انجکشن لگا رہا تھا جبکہ اسٹور کیپر زشاد علی اور شاکر نے ادویات اور دیگر ضروری سامان کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا تھا ہسپتال میں صفائی کی صورتحال ناگفتہ بہ تھی اور واش رومز گندے پانی کے جوہڑ بن کر ناقابل استعمال ہو گئے تھے، ہسپتال کے گیٹ پر چوکیدار نہیں تھا لائٹس خراب ہونے کی وجہ سے ہر جگہ اندھیرے کا راج تھا جبکہ ہسپتال کا سٹور بند ہونے کی وجہ سے مریض بچوں کے والدین کو تمام ادویات باہر سے لانا پڑ رہی تھیں حتیٰ کہ تشویشناک حالت میں لائے بچوں کی ادویات کا بندوبست بھی نہیں تھا اور انہیں انجیکشن اور کینولہ سے لیکر زندگی بچانے والی نایاب ادویات کا بندوبست بھی اپنے طور کرنا پڑ رہا تھا مریضوں اور تیمار داروں کیلئے بنائی گئی انتظار گاہ بندتھی اور پورے ہسپتال میں ایک بھی نیڈل کٹر موجود نہیں تھا وزیراعلیٰ نے یہ صورتحال دیکھ کر ایم ایس ڈاکٹر احسان ترابی کو طلب کیا تو ایک گھنٹے کے انتظارکے باوجود اس سے رابطہ نہیں ہو پایا جس پر وزیراعلیٰ نے اپنی گاڑی بھیج کر اسے گھر سے بلایا اور ہسپتال کی ناقص صورتحال کی وجہ پوچھی تو ایم ایس نے حقائق کے برعکس وزیراعلیٰ کو سب اچھا کی رپورٹ دینا شروع کر دی اور بتایا کہ نائٹ شفٹ کا تمام عملہ حاضر ہے، ہسپتال میں تمام ادویات موجود ہیں، سٹور بھرا پڑا ہے اور کوئی ایک چیز بھی باہر سے منگوانے کی ضرورت نہیں پڑتی تاہم انکی موجودگی میں وارڈ کے راؤنڈ کے دوران داخل شدہ مریض بچوں کے تیمار داروں نے بتایا کہ انہیں ہسپتال سے ایک دوائی بھی نہیں دی گئی اور تمام ادویات باہر سے لانا پڑرہی ہیں اس دوران ایک دلچسپ انکشاف یہ بھی ہوا کہ باہر سے منگوائی گئی تمام ادویات کی سرکاری رجسٹر اور مریض بچوں کے ایڈمشن چارٹ میں سٹور سے فراہمی ظاہر کی گئی تھی اور اس پر باقاعدہ دستخط بھی ہوئے تھے جس پر پرویز خٹک نے انتہائی برا مناتے ہوئے کہا کہ ننھے بچوں کے نام پر بھی ادویات کی چوری پر آپ سب کو شرم آنی چاہیئے ہر ہسپتال کے انتظامی اُمور، تنخواہوں اور ادویات پر الگ الگ کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں مگر مریض کو فائدے کی بجائے تکالیف کا سامنا رہتاہے اسکے برعکس پرائیویٹ ہسپتال کم بجٹ میں عمدہ خدمات دیتے ہیں اور اگر یہ حال ہو تو ایسے سرکاری ہسپتالوں کا ہونا نہ ہونا برابر بلکہ ان کا بند ہونا ہی بہتر ہے تاکہ قوم کے قیمتی فنڈز کی بچت تو ہو وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ کیسا ہسپتال ہے جس میں سٹور بھرا ہونے کے باوجود غریب والدین کو تمام ادویات باہر سے لانا پڑتی ہیں زندگی بچانے والی دوائی اگر باہر سے نہ ملے تو کیا بچے کو مرنے دیا جائے نجانے کتنے پھول بچے ایسی لاپرواہی سے مرچکے ہونگے ادھر ایمبولینس تو موجود ہے مگر ڈرائیور غائب ہے اور سیریس بچوں کو والدین ہی کندھوں پر پیدل دوسری جگہ دوڑایا جاتا ہے نیڈل کٹر استعمال نہ ہونے کی وجہ سے انسانی زندگی خطرے میں ہے انسی نیٹر بھی موجود نہیں آپ جیسے ذی شعور لوگ اگر غریب عوام کے حال پر رحم نہیں کرینگے تو کون کرے گا ڈاکٹر اپنے حقوق کیلئے آئے روز ہڑتال کرتے ہیں تو پھر ہسپتال کی اس حالت زار پر بھی ہڑتال کرکے دکھائیں اور عوام کی بد دعاؤں سے بچیں ایم ایس کے سوری کہنے پر وزیراعلیٰ نے خبردار کیا کہ اس سے کام نہیں چلے گا اگر انچارج کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ہسپتال کی حالت درست نہیں کر سکتا تو اسکی ہمیں ضرورت کیا ہے اور متنبہ کیا کہ آئندہ بھی وہ دن رات کے چوبیس گھنٹے کہیں بھی اچانک دورے کرکے اداروں کی خبر لیتے رہیں گے سوری کہنے کی بجائے تمام اہلکار اپنی کارکردگی ٹھیک کریں ورنہ کسی نرمی کی توقع نہ رکھیں انہوں نے کہا کہ آئندہ اتنی خراب حالت پر وہ صرف اداروں کی انتظامیہ کی سرزنش پر اکتفا نہیں کرینگے بلکہ محکمے کے وزیر اور سیکرٹری تک سے اعلیٰ سطح پر بھی پوچھ گچھ ہوگی وزیراعلیٰ نے کہا کہ عنقریب موجودہ حکومت کے نئے قوانین لاگو ہونے سے تمام محکمے عوامی خدمات کے تابع ہوں گے اور نوکر شاہی کا دور ختم ہو کرعوامی اختیارات کا سنہری وقت شروع ہو جائے گا انہوں نے کہا کہ ہمیں انتظار احتساب کمیشن کا ہے جو آئندہ ایک ڈیڑ ھ مہینے میں کام شروع کر دے گا اور اس کی بدولت بد عنوان اور نا اہل لوگوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑے گی اسی طرح رائٹ ٹو سروس بل لاگو ہونے سے محکموں کے سربراہ عوام کو مطلوبہ سہولیات کی فراہمی کے پابند ہوں گے ورنہ شہریوں کے قیمتی وقت اور پیسے کے نقصان کی تلافی انہیں اپنی جیب سے کرنی پڑے گی۔

متعلقہ عنوان :