طالبان سے مذاکرات پر سُنی تحریک نے دس نکاتی سوالنامہ پیش کردیا،دہشتگردوں سے مذاکرات کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ اگردہشتگرداسی طرح اپنے مطالبات منواتے رہے تو آئین ،قانون کہاں جائیگا؟ پاکستان سنی تحریک

منگل 4 فروری 2014 20:08

کراچی ،اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔4 فروری ۔2014ء) پاکستان سُنی تحریک نے طالبان سے حکومتی مذاکرات پر دس سوالات اُٹھادِیے۔سربراہ پاکستان سُنی تحریک محمدثروت اعجازقادری کی زیرصدارت مرکزاہلسنت پر مرکزی رہنماؤں اوراراکین رابطہ کمیٹی کے اہم ترین ہنگامی اجلاس میں طالبان سے حکومتی مذاکرات اور فریقین کے نمائندگان کے اعلان کے بعدکی صورتحال کاجائزہ لیاگیا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ پاکستان سُنی تحریک محمدثروت اعجازقادری نے کہاکہ طالبان سے حکومتی مذاکرات آئین، شریعت اورشہداء کے لواحقین سے سنگین مذاق ہے۔ مذاکراتی عمل پر قوم شدیدتشویش کا شکارہے، شہداء کے لواحقین سمیت پوری قوم کو اعتماد میں لیاجائے۔وطن عزیز میں ایک مرتبہ پھر مذاکرات کے نام پر ملک دشمن قوتوں کو تقویت دینے کا گھناؤنا کھیل کھیلاجارہاہے۔

(جاری ہے)

قوم پچاس ہزارسے زائدشہداء کے خون پرکسی صورت سودے بازی قبول نہیں کرے گی۔طالبان کا ریموٹ کنٹرول پاکستان سے باہر ہے اس لیے مذاکرات سے اُمیدیں وابستہ کرنا حماقت ہے۔ مذاکراتی ڈرامے سے دہشتگرد وں کومزید منظم ہونے کا موقع ملے گا۔پاکستان سنی تحریک کی جانب سے جاری کردہ دس نکاتی سوالنامے میں کہا گیاکہ پاکستان کاآئین ریاست کے باغیوں سے مذاکرات کو رد کرتا ہے ، دہشت گردوں سے مذاکرات کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ اگردہشتگرداسی طرح مذاکرات کے نام پر اپنے مطالبات منواتے رہے تو آئین ،قانون اورعدلیہ کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟کیا طالبان سے مذاکرات کیلئے کوئی ضمانت موجود ہے؟ اگر ہے تو وہ کون ہیں ؟ اگر طالبان کسی معاہدے کو توڑیں گے تو کیا طالبان کی نامزد کمیٹی اس کی ذمہ داری قبول کرے گی؟اگر حکومت نے ہزاروں بیگناہوں کے اعلانیہ قاتلوں سے مذاکرات ہی کرنے ہیں تو دوسرے مجرموں کوجیلوں میں قید کرنے کا کیا جواز ہے؟اہلسنت سمیت دیگرمکاتب فکرکی مذہبی آزادی پر قد غن لگانا طالبان کا ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے۔

کیامذاکرات کے پردے میں طالبان کے نظام کو قانونی شکل میں رائج کیاجارہاہے؟مذاکراتی عمل کیلئے وطن عزیز میں دہشتگردی کے سب سے بڑے شکار مکاتب فکر اور جماعتوں کو اعتماد میں کیوں نہیں لیاگیا؟دہشتگردوں سے مذاکرات کا دم بھرنے والے اب تک شہداء کے وارثین کی تسلی اور تشفی کیلئے کیوں نہیں گئے ؟ مذاکراتی عمل کیلئے صرف دہشتگرد وں اور اس کے سرپرستوں کی رائے کیوں اہم سمجھاگیا؟نام نہاد مذاکراتی عمل کا دورانیہ کیاہے ؟ اگرنہیں ہے تو کیوں نہیں؟کیامذاکرات کے نام پر دہشتگردوں کو دی جانیوالی تمام رعایتوں کی تفصیلات قوم کے سامنے واضح نہیں ہونی چاہئیں؟

متعلقہ عنوان :