سینیٹ اجلاس ، سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے پیش کر دہ دوقرار دادیں منظور کرلی گئیں ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ء میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جائیں ،قرار داد کا متن ،اطلاعات تک رسائی، منصفانہ مقدمات اور بنیادی حقوق کے مطابق تشکیل دیا جائے ،فرحت اللہ بابر

پیر 3 فروری 2014 21:12

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔3 فروری ۔2014ء) سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے پیش کی ہوئی دو (2)قراردادیں متفقہ طور پر منظور کر لی گئیں۔ ایک قرارداد میں کہا گیا تھا آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ء میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جائیں اور اسے اطلاعات تک رسائی، منصفانہ مقدمات اور بنیادی حقوق کے مطابق تشکیل دیا جائے۔

سینیٹ میں فرحت اللہ بابر کی جانب سے دوسری قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ان جج حضرات کے نام شائع کئے جائیں جن کے پاس دوہری شہریت ہے۔ یہ قرارداد ایوان کے ایجنڈے پر کئی ماہ سے موجود تھی اور بہت عرصے سے ایسے ججوں کے ناموں کے متعلق پوچھا جا رہا تھا جن کے پاس دوہری شہریت ہے لیکن یہ نام مہیا نہیں کئے گئے۔

(جاری ہے)

اپنی پیش کردہ قرارداد پر بحث کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ء کے ذریعے پارلیمنٹ سے بھی اطلاعات مخفی رکھی جاتی ہیں اور اس کے لئے کوئی ایسی گائیڈ لائن نہیں بنائی گئی کہ دستاویزات کو مخفی رکھنے کا حکم کون دیتا ہے اور یہ کیسے مخفی رکھی جاتی ہیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اس ایکٹ کے متروک ہو جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ایکٹ کے سیکشن 4 کے مطابق کوئی بھی شخص اگر پاکستان یا پاکستان سے باہرکسی غیرملکی ایجنٹ سے ملاقات کرتا ہے یا اس کے پاس سے کسی غیرملکی کے نام اور پتے برآمد ہوتے ہیں تو اس پر بھی مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور اس پر یہ الزام لگا دیا جاتا ہے کہ اس کے، دشمنوں کے ایجنٹوں سے تعلقات ہیں۔

پس اگر کسی غیرملکی سفارتکار یا تاجر کا ویزیٹنگ کارڈ کسی کے پاس سے برآمد ہوتا ہے تو اسے بھی اس ایکٹ کے ذریعے غیرملکی ایجنٹ سے رابطہ رکھنے کا مجرم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے ڈاکٹر کریم خواجہ کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں سے ایک نئی ڈاکٹرائن استعمال کی جا رہی ہے کہ پارلیمنٹ کی بجائے آئین سپریم ہے اور آئین وہ ہے جس کی سپریم کورٹ تشریح کرے۔

اس ڈاکٹرائن کے بہت ہی پیچیدہ مضمرات دیگر اداروں پر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جہاں عدالتوں اور اداروں کے درمیان اتفاق نہ ہو۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ عدالت کی جانب سے آئین کی تشریح دیگر اداروں کے مقابلے میں عدالت کی حمایت میں ہو اور اس طرح آئین میں دئیے گئے توازن کا جھکاؤ عدالتوں کی طرف ہو جاتا ہے ایسی صورت میں یہ ضروری ہے کہ آئینی معاملات کے حل کے لئے آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ کئی دیگر ممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہیں اور میثاقِ جمہوریت بھی آئینی عدالتیں قائم کرنے کی شق تھی جس پر شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نوازشریف نے دستخط کئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کرتے وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے تجویز دی تھی کہ آئینی عدالتوں کے قیام کے بارے مستقبل میں قانون سازی کی جائے گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر اس پر سنجیدہ کوشش کرے۔

متعلقہ عنوان :